• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کی طرف نسبت کیے بغیر کئی دفعہ ’’طلاق‘‘ بول دیا

استفتاء

میری  اپنی کزن (تایا کی بیٹی) سےشادی ہوئی ۔دو ماہ گزر ےتو میری ساس نے کہا اس مکان میں میری بیٹی نہیں رہ سکتی کیونکہ یہ مکان دو عدد کمروں پر مشتمل ہے اس میں 2 بھائی نہیں رہ سکتے، اس پر میری گھر والی سے بحث ہوگئی کہ وہ ایک کمرے والے مکان میں رہ سکتی ہے لیکن میری ساس نے کہا کہ  میری بیٹی کو کرایہ کامکان لے کر دو ورنہ میں اس  کو ساتھ لے جاؤں گی ،میں نے ان  سے وعدہ کیا کہ2  ماہ  کے بعد اس کو کرایہ کا مکان لے کر دیتے ہیں اور اسی دوران  اللہ تعالیٰ  نے  مجھے ایک بیٹی دی اور گھر خوشی سے بھر گیا پھر کچھ ماہ گزر جانے کے بعد  میری ساس نےمیری بیوی سے کہا  کہ اپنا حق مانگو  اور میری بیوی اور میری ساس دونوں نےمل کر میری والدہ سے جھگڑا کیاکہ میرے خاوند کا اس مکان میں حصہ دو اس وجہ سے میرا میری بیوی سے جھگڑا ہوا اس کی ماں نے مجھے کہا  کہ اپنی ماں سے اپنے آبائی مکان  میں سے حصہ لو میں نے کہا کہ جب مکان فروخت ہوگا تب اس مکان سے حصہ لوں گا ۔میرے اور بیوی کے درمیان جھگڑا شروع ہوگیا، پھر میری ساس اپنی بیٹی کو ساتھ لے گئی اور کہا کہ جب مکان سے اپنا حصہ لوگے تومیں اپنی بیٹی کو چھوڑ جاؤں گی ۔ کچھ عرصہ کے بعد مکان فروخت ہوگیا اور میں نے 6 مرلہ کا پلاٹ لیاپھر اس نے کہا کہ  میری بیٹی کے نام پلاٹ لگاؤ تو میں اپنی بیٹی کو آپ کے گھر چھوڑ جاؤں گی۔

کچھ دن زندگی خوش حال گزری پھر اچانک میری ساس میرے  گھر آئی۔  ہم دونوں میاں بیوی اور میری بیٹی خوشحال زندگی بسر  کررہے تھے میں ایک کرایہ کے مکان میں اکیلا رہتا تھا میری والدہ محترمہ چھوٹے بھائی کے ساتھ رہتی تھیں ۔سب  بھائیوں کی شادی ہوچکی ہےاور خوشحال زندگی بسر کررہے ہیں۔  میں نے اپنے بھائی سے پیسے لینے تھے تو میری ساس نے میری بیوی سے کہا کہ اس کو کہو کہ اپنے بھائی سے پیسے مانگے تو میں نے جواب دیا کہ وہ میرا مسئلہ ہے اس بات پر میری ساس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور  میری بیوی نے بھی مجھ سے جھگڑا کیا۔

میری بیوی نے سونے کی بالیاں بنوائیں۔ میں نے پوچھا تم نے بالیاں کہاں سے خریدیں اور پیسے کہاں سے آئے؟ اس نے کہا میں نے سلائی مشین کی کمائی سے بنوائی ہیں۔میں نے شک کیا کہ اس نے غلط طریقے سے بالیاں خریدی ہیں اس بات پر میری ساس نے جھگڑا کیا اور گالیاں دینی شروع کردیں ۔میں نے اپنی ساس سے پوچھا وہ کون سی سلائی مشین ہے جس کی آمدنی 12000 روپے ہو ۔اس بنیادپرجھگڑا ہوااور میری بیوی نے مجھے گالیاں دیں اور بدتمیزی کی اور لڑائی اتنی زیادہ ہوگئی کہ میں غصہ پرقابو نہ کرسکا۔ مجھے پتہ نہیں  چلا کہ زبان پر کب طلاق کےا لفاظ آئے، میں نے اپنی بیوی کو طلاق بول دیا۔میری بیوی نے مجھ سے معافی مانگی اور کہا کہ مجھے معاف کردو اور بیٹی کا واسطہ دیا۔لڑائی میری ساس کے اس غلط جملے سے شروع ہوئی کہ اگر تو نےاس کو طلاق نہ دی تو میں طلاق لے لوں گی۔

تنقیح از شوہر:اس موقع پر میری ساس نے میری ماں اور بھائیوں کو گندی گالیاں دینی شروع کر دیں۔غیرت مند  آدمی کے لیے اپنی ماں کے بارے میں سننا ناقابل برداشت ہوتا ہے پھر اس نے میرا گریبان پکڑ لیا  جو کہ اس سے قبل کبھی نہ پکڑا تھا ان دونوں باتوں کی وجہ سے مجھے طیش آگیا اور میں نے ایک ہی سانس میں چار پانچ دفعہ طلاق طلاق کہا، بولتے ہوئے غیر اختیاری طور پر  میرے منہ سے نکل گیا تھا میرا ارادہ نہیں تھا  لیکن مجھے علم تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور کوئی توڑ پھوڑ یا خلاف عادت اقوال وافعال بھی صادر  نہیں ہوئے۔  اب میری بیوی کہتی ہے کہ میری ماں کی غلطی کی سزا مجھے کیوں دی۔

بیوی کا بیان:

میرے شوہر نے مجھ سے پوچھا تھا  کہ جو تم نے  سونے کی بالیاں بنوائی ہیں ان کی رقم کہاں سے آئی؟ میں نے اس کا جواب نہیں دیا انہوں نے مجھ پر شک کیا اور جھگڑا کیا اور میری والدہ محترمہ نے بھی میرے شوہر  سے لڑائی کی اور گالی وغیرہ دی ،شک کی بنیاد پر لڑائی شروع ہوگئی میری والدہ نے کہا کہ تم شک کرتے ہو میری بیٹی کو طلاق دیدو، لڑائی مزید بڑھ گئی میرے اور شوہر کے درمیان بحث ہوئی اور میرے شوہر نے غصہ اور لڑائی کے درمیان مجھے طلاق دےدی، میرے گھر میں ویسےبھی لڑائی ہوتی تھی لیکن میرے شوہر نے کبھی بھی مجھے طلاق کا لفظ نہیں کہاتھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی  ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذ ااب نہ رجوع  ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش  ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں طلاق دیتے وقت اگرچہ شوہر غصہ میں تھا لیکن غصہ کی کیفیت ایسی نہ تھی کہ  شوہر کو معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کررہا ہے اور نہ ہی اس سے ا س موقع پر غصہ کی وجہ سےکوئی خلاف عادت قول یا فعل سرزد ہوا ، غصے کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے  لہٰذ ا جب شوہر نے متعدد دفعہ طلاق کا لفظ کہا تو اس سے  تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں نیز طلاق کے الفاظ میں اگرچہ صراحۃ  بیوی کی طرف نسبت نہیں پائی جا رہی لیکن معنیً اضافت پائی جا رہی ہے کیونکہ عام طور پر طلاق کا لفظ بیوی کو ہی بولا جاتا ہےاور سوال میں بھی چونکہ شوہر بیوی سے ہی مخاطب تھا لہٰذا سیاق وسباق سے بھی یہی معلوم ہورہا ہے کہ شوہر نے طلاق کے الفاظ بیوی کو ہی بولے ہیں۔

رد المحتار(439/4) میں ہے:

وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.

الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله. اه……………

(وبعد اسطر) فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل

در مختار (4/443) میں ہے:

(صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)….. (يقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح، ….. (واحدة رجعية…..

درمختار مع ردالمحتار(4/509) میں ہے:

كرر لفظ الطلاق وقع الكل.

(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.

ردالمحتار(4/444)میں ہے:

ولا ‌يلزم ‌كون ‌الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته. اهـ. على أنه في القنية قال عازيا إلى البرهان صاحب المحيط: رجل دعته جماعة إلى شرب الخمر فقال: إني حلفت بالطلاق أني لا أشرب وكان كاذبا فيه ثم شرب طلقت. وقال صاحب التحفة: لا تطلق ديانة اهـ وما في التحفة لا يخالف ما قبله لأن المراد طلقت قضاء فقط، لما مر من أنه لو أخبر بالطلاق كاذبا لا يقع ديانة بخلاف الهازل، فهذا يدل على وقوعه وإن لم يضفه إلى المرأة صريحا، نعم يمكن حمله على ما إذا لم يقل إني أردت الحلف بطلاق غيرها فلا يخالف ما في البزازية ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن امرأتي يصدق اهـ ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته، لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها لأنه يحتمله كلامه، بخلاف ما لو ذكر اسمها أو اسم أبيها أو أمها أو ولدها فقال: عمرة طالق أو بنت فلان أو بنت فلانة أو أم فلان، فقد صرحوا بأنها تطلق، وأنه لو قال: لم أعن امرأتي لا يصدق قضاء إذا كانت امرأته كما وصف كما سيأتي قبيل الكنايات وسيذكر قريبا أن من الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام، فيقع بلا نية للعرف إلخ. فأوقعوا به الطلاق مع أنه ليس فيه إضافة الطلاق إليها صريحا، فهذا مؤيد لما في القنية، وظاهره أنه لا يصدق في أنه لم يرد امرأته للعرف، والله أعلم

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved