• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’ اگر تم نے اپنے فلاں کزن سے فون پر بات کی تو تمہیں طلاق‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ’’ آپ نے اپنے کزن کے ساتھ فون پر بات نہیں کرنی اگر کی تو آپ کو طلاق‘‘۔اس کے بعد  میری بیوی کو اس کزن کی کال آئی، بیوی نے اس کا فون نہیں اٹھایا ۔بیوی کے کزن نے اپنا نمبر تبدیل کر کے میری بیوی کو نئے نمبر سے میسج کیا جبکہ میری بیوی کو معلوم نہ تھا کہ یہ کس کا نمبر ہے میسج یہ تھا  کہ ’’میں آپ کا فلاں کزن ہوں،  فلاں رشتہ دار آپ کا نمبر مانگ رہا ہے ،کیا میں اس کو آپ کا نمبر دے دوں‘‘؟بیوی نے اس کے جواب میں میسج کر کے کہا ’’دے دو‘‘۔

اب سوال یہ ہے کہ میں نے فون پر بات کرنے سے منع کیا تھا میسج کرنے کی بات نہیں ہوئی تھی اور بیوی نے براہ راست فون پر بات کرنے کی بجائے میسج کے جواب میں کہا کہ نمبر دے دو،کیا میسج کا جواب میسج کے ذریعے دینے سے طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں طلاق و اقع نہیں ہوئی۔

توجیہ: شوہر نے طلاق کو کزن سے فون پر بات کرنے پر معلق کیا تھا اور بیوی نے کزن سے فون پر بات نہیں کی، بلکہ میسج کیا ہے اور عرف میں میسج کرنے کو بات کرنانہیں کہا جاتا کیونکہ فقہائے کرامؒ کی تصریحات کے مطابق کلام(بات چیت) زبان سے ہوتا ہے  نہ کہ اشارے اور کتابت سے لہٰذا میسج کرنا جب کلام(بات چیت)  نہ ہوا تو طلاق بھی واقع نہیں ہوئی ۔

الدر المختار(3/792) میں ہے:

(‌الكلام) ‌والتحديث (لا يكون إلا باللسان) فلا يحنث بإشارة وكتابة كما في النتف. وفي الخانية: لا أقول له كذا فكتب إليه حنث ففرق بين القول والكلام، لكن نقل المصنف بعد مسألة شم الريحان عن الجامع أنه كالكلام خلافا لابن سماعة (والإخبار والإقرار والبشارة تكون بالكتابة لا بالإشارة والإيماء، والإظهار والإنشاء والإعلام يكون) بالكتابة و (بالإشارة أيضا)

البحر الرائق(4/361) ميں  ہے:

واعلم أن ‌الكلام ‌لا ‌يكون إلا باللسان فلا يكون بالإشارة، ولا بالكتابة، والإخبار والإقرار والبشارة تكون بالكتابة لا بالإشارة والإيماء، والإظهار والإفشاء والإعلام يكون بالإشارة أيضا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved