• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تقسیمِ وراثت سے پہلے ایک بیٹی کا انتقال ہوگیا تو کیا اس بیٹی کا حصہ نکالا جائے گا؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیانِ عظام درج ذیل جائیدد اور رقم کی تقسیم کے بارے میں کہ محمد ارشد مرحوم کا انتقال 2013ء میں ہوا۔ اس وقت ان کی ایک بیوی، 2 بیٹے اور 3 بیٹیاں حیات تھیں۔ پھر 2016ء میں مرحوم کی ایک بیٹی ** کا انتقال ہوگیا، اس کے ورثاء میں ماں،  خاوند، ایک بیٹا اور 3 بیٹیاں ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں درج ذیل مسائل کاحل  درکار ہے:

1۔ ہر وارث کا حصہ بیان فرما دیں۔

2۔ مرحوم کا انتقال 2013ء میں ہوا، لیکن وراثت کی تقسیم 2022ء میں ہورہی ہے اور اب مرحوم کے ورثاء میں سے ایک بیٹی کا انتقال 2016ء میں ہوا ہے تو کیا اس فوت شدہ بیٹی کو بھی تقسیم کے وقت حصہ دیا جائے گا؟

3۔ ایک حصہ مرحومہ کی والدہ کو اس کے شوہر کی طرف سے مل گیا۔ کیا اب اس کی مرحومہ بیٹی کے حصے سے بھی اسے دوبارہ دیا جائے گا؟

برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں تفصیلا رہنمائی فرمائیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ دارین میں آپ کو اس کی بہترین جزاء عطا فرمائیں، اور ہمیں قرآن وحدیث کے مطابق اپنے فیصلے کرنے اور ان پر عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) مذکورہ صورت میں** مرحوم کی وراثت کے 480 حصے کیے جائیں گے جن میں سے ہروراث کو مندرجہ ذیل حصے دئیے جائیں گے۔

نام ورثاءشرعی حصہفیصدی حصہ
زوجہ** مرحوم7014.583%
** کا بیٹا112025%
** کا بیٹا212025%
**کی بیٹی16012.5%
** کی بیٹی26012.5%
**کا خاوند153.125%
** کا بیٹا142.916%
** کی بیٹی171.458%
**کی بیٹی271.458%
** کی بیٹی371.458%

(2) اگرچہ ** کی وراثت کی تقسیم ایک بیٹی(زینب)  کی وفات کے بعد ہورہی ہے لیکن چونکہ جب **کا انتقال ہوا تھا اس وقت یہ بیٹی  زندہ تھی جس کی وجہ سے اس کا وراثت میں حق ثابت ہوچکا تھا اس لیے اس بیٹی  کا حصہ نکالا جائے گا جو اس کے ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔

(3) مذکورہ صورت چونکہ** کی والدہ زندہ ہے جو **کے ورثاء میں بھی شامل ہے اس لیے**کے حصے سے بھی اس کی والدہ کو حصہ دیا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved