• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میاں بیوی کا طلاق کےبارے میں اختلاف

استفتاء

بخدمت جناب مفتی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

بیوی کا بیان:

گزارش ہے کہ میں آپ سے ایک مسئلہ کا حل پوچھنا چاہتی ہوں۔ میری شادی کو تقریبا 20 سال ہو چکے ہیں اور میرے چار بچے بھی ہیں۔ تقریبا دس سال پہلے میرے خاوند نے مجھے جھگڑے کے دوران یہ الفاظ کہے’’ تو  اپنے باپ کے گھر چلی جا، تیرا میرا کوئی تعلق نہیں، تیرا میرا کوئی رشتہ نہیں‘‘ اس جھگڑے کے بعد اندازاً ڈیڑھ یا دو سال بعد پھر ایک جھگڑے کے دوران میرے خاوند نے مجھے کہا کہ تو ’’اپنے باپ کے گھر چلی جا‘‘ تو میں نے کہا کہ میں ایسے نہیں جاؤں گی، تم مجھے طلاق دو گے تو میں جاؤں گی، اس پر میرے خاوند نے کہا کہ ’’میں نے تجھے طلاق دے دی‘‘ اس کے بعد وہ دوسرے کمرے میں چلے گئے، تھوڑی دیر بعد آئے اور کہنے لگے ’’تم کیوں نہیں جا رہی؟ میں نے طلاق تو دے دی ہے‘‘ اس واقعہ کے ایک یا دو دن بعد میں اپنے والد صاحب کے گھر آ گئی، ہماری ناراضگی چلتی رہی اور شوہر نے رجوع کے الفاظ نہیں کہے تھے  اور تقریبا ایک سال کا عرصہ گزارا، پھر کچھ رشتہ داروں نے صلح صفائی کروا دی اور میں پھر اپنے خاوند کے گھر آگئی۔ اس واقعہ کے بعد پھر ہمارے جھگڑے ہونے لگے تو میں پھر والد صاحب کے گھر آگئی اور کئی ماہ رہنے کے بعد پھر رشتہ داروں نے صلح کروا دی نیا نکاح نہیں ہوا تھا۔ صلح کے بعد میں خاوند کے گھر آگئی۔

مفتی صاحب! اب حالات ایسے ہیں کہ جب بھی میرا اپنے خاوند سے کسی بات پر تکرار یا جھگڑا ہوتا ہے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ جو تو چاہتی ہے وہ میں کردوں گا۔

مفتی صاحب! گزارش ہے کہ اس سے پہلے مجھے طلاق کنایہ وغیرہ کے مسائل کا علم نہ تھا اب مجھے ایک عالمہ نے ان مسائل کے بارے میں بتایا ہے تو میں اللہ تعالیٰ سے توبہ استغفار کرتی ہوں۔ برائے مہربانی مجھے یہ بتایا جائے کہ ان حالات میں مجھے کیا کرنا چاہیے اور اب میں اپنے شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہوں یا نہیں؟ اگر اپنے خاوند کے ساتھ رہ سکتی ہو تو اس کی کیا صورت ہے؟

شوہر کا بیان:

جناب مفتی صاحب! میری اہلیہ کے مذکورہ مسئلہ میں جو دس سال پہلے جھگڑا ہوا تھا اس میں، میں نے صرف یہ الفاظ کہے تھے کہ ’’اپنے باپ کے گھر چلی جا‘‘ ان الفاظ کے علاوہ میں نے اور دوسرے الفاظ بالکل نہیں کہے اور اس سے اگلے موقع پر جو جھگڑا ہوا اس جھگڑے میں میری اہلیہ اس بات کا مسلسل مطالبہ کر رہی تھی کہ مجھے طلاق دو، تو اس موقع پر بھی میں نے صرف ایک ہی بات کہی کہ میں طلاق دے دوں گا، اس کے علاوہ میں نے اور دوسرے الفاظ نہیں کہے۔ اور تقریبا ایک سال بعد ہماری صلح ہوئی۔ اس بیان کا اقرار میں حلفاً کرتا ہوں بقائمی ہوش و حواس، میرا بیان سچ تسلیم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

(شوہر)

وضاحت مطلوب ہے کہ:  جب شوہر نے یہ الفاظ کہے کہ ’’اپنے باپ کے گھر چلی جا‘‘ تو شوہر کی نیت کیا تھی؟

جوابِ وضاحت:  میری نیت طلاق کی نہیں تھی، اور نہ میں نے کبھی طلاق دی ہے۔ (شوہر)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوچکی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوچکا ہےلہٰذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔

توجیہ: بیوی کے بیان کے مطابق شوہر نے جو جملے استعمال کیے کہ’’تو اپنے باپ کے گھر چلی جا، تیرا میرا کوئی تعلق نہیں، تیرا میرا کوئی رشتہ نہیں‘‘ ان میں سے پہلا جملہ کنایاتِ طلاق کی پہلی قسم میں سے ہے جس سے طلاق کا واقع ہونا ہر حال میں نیت پر موقوف ہوتا ہے اور اگلے دو جملے کنایاتِ طلاق کی دوسری قسم میں سے ہیں جس سے غصے کی حالت میں بھی طلاق واقع ہونے کے لئے طلاق کی نیت کا ہونا ضروری ہے۔ چونکہ شوہر نے ان جملوں سے طلاق کی نیت نہیں کی تھی لہٰذا ان سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔لیکن شوہر کو طلاق کی نیت نہ ہونے پر بیوی کے سامنے قسم دینا ضروری ہے، اگر قسم دینے سے انکار کرے تو بیوی اپنے حق میں ایک طلاق سمجھنے کی پابند ہوگی اور اس صورت میں اس کے دس سال  بعد شوہر نے طلاق کا جو جملہ استعمال کیا اس سے مزید کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔

اور اگر طلاق کی نیت نہ ہونے پر شوہر قسم دے دے تو ان  مذکورہ جملوں سے بیوی کے حق میں بھی کوئی طلاق واقع نہ ہوگی لیکن اس کے بعد  بیوی کے بیان کے مطابق جب شوہر نے بیوی سے کہا کہ ’’میں نے تجھے طلاق دے دی‘‘ تو بیوی کے حق میں اس سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی، اس کے بعد عورت اپنے والد کے گھر چلی گئی اور عدت (تین حیض) کے اندر شوہر نے رجوع بھی نہیں کیا لہٰذا رجوع نہ ہونے کی وجہ سے رجعی طلاق، بائن ہوگئی، شوہر اگرچہ طلاق دینے سے انکار کررہا ہے لیکن طلاق کے معاملے میں بیوی کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے لہذا اگر اسے معتبر ذریعہ سے شوہر کا طلاق دینا معلوم ہو تو اس کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مذکورہ صورت میں بھی بیوی کو شوہر کے طلاق دینے کا یقین ہے لہٰذا وہ اپنے حق میں ایک طلاق شمار کرنے کی پابند ہے۔ آئندہ شوہر کے پاس دو طلاقوں کا اختیار باقی ہوگا۔

شوہر کے بیان کے مطابق: شوہر نے جو جملہ بولا کہ ’’میں طلاق دے دوں گا‘‘یہ مستقبل کا صیغہ ہے، اور مستقبل کے صیغے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

کفایت المفتی (34/6) میں ہے:

’’سوال: زید نے اپنی بیوی کو غصہ میں مارپیٹ کر مکان سے باہر کردیا اور کہا ’’تو اپنے باپ کے مکان پر چلی جا‘‘ پھر چند گھنٹے بعد مکان میں داخل کرلیا اور مل بیٹھے۔ اس کے بعد لڑکی کے والد کو خبر ہوئی، کئی روز بعد وہ اس کو اپنے مکان میں لے گئے۔ لڑکی کے والد کو بعض لوگوں نے یہ مشورہ دیا کہ اب لڑکی کو وہاں نہ بھیجو بلکہ اس کا نکاح دوسری جگہ کردو اور کسی مولوی صاحب سے فتویٰ لے لو۔ ۔۔۔۔۔۔الخ

جواب: شوہر اگرچہ اقراری ہے کہ میں نے مار پیٹ کے بعد غصہ کی حالت میں کہہ دیا کہ ’’باپ کے یہاں تو چلی جا‘‘ لیکن طلاق کی نیت سے شوہر انکاری ہے لہذا اس صورت میں طلاق نہیں پڑی۔ اور نکاح شوہر اول کا بدستور سابق قائم ہے تو باوجود قائم ہونے نکاح شوہر سابق کے دوسرا نکاح باطل وناجائز ہوگا۔ شوہر ثانی پر لازم ہے کہ اس عورت کو شوہر سابق کے سپرد کردے ورنہ بذریعہ عدالت کے شوہر اول اپنی زوجہ کو لے سکے گا۔ والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة رد المحتار جلد۲، ص ۵۰۵‘‘

امداد المفتین (ص 527) میں ہے:

’’زید کا قول ہم سے تم سے کوئی تعلق نہیں، یہ کنایہ طلاق ہے۔ صرح بہ فی عالمگیریہ والخلاصۃ حیث قال لم یبق بینی وبینک عمل او شیئ وامثال ذلک۔ اور یہ کنایہ قسم ثانی میں داخل ہے ‘‘

فتاویٰ شامی (449/4) میں ہے:

والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه

بدائع الصنائع (3/283) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد…… فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved