• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دو طلاق ہونے کے بعد تیسری طلاق معلق کرنے کا حکم

استفتاء

ایک شخص کی بیوی اپنے میکے میں ایک گھر جاتی تھی، شوہر کو اس کا جانا پسند نہیں تھا اس نے کئی دفعہ اس کو منع کیا بالآخر ایک دن بیوی وہاں گئی تو اس کو غصہ آگیا اور اس نے غصے میں کہا کہ "اب اگر فلاں فلاں کے گھر گئی تو تجھے طلاق حتیٰ کہ اگر  تو گھر سے نکلی تو  بھی تجھے طلاق،  شوہر نے اپنی بیوی کو یہ الفاظ غصہ کی حالت میں کہے لیکن نشہ میں نہ تھا اور شوہر  کے ہوش وحواس قائم تھے کوئی توڑ پھوڑ وغیرہ اور کوئی خلاف عادت فعل بھی نہیں کیا تھا، تو مفتی صاحبان شوہر نے طلاق کو خروج دار پر معلق کیا ، آیا اس  شرط کے پائے جانے سے مشروط  (طلاق) واقع ہوگی؟شوہر اسے پہلے دو طلاقیں بھی دے چکا تھا  اور  یہ دونوں طلاقیں صریح تھیں، اس کے بعد فتویٰ لے کر عدت کے اندر رجوع کرلیا تھا۔وہ عورت ابھی تک گھر سے نہیں نکلی کیونکہ وہ بال بچے والی ہے ،کیا وہ اپنے بچوں کے علاج معالجے کے لیے نکل سکتی ہےجب گھر میں کوئی مرد وغیرہ نہ ہو؟ اور وہ عورت شدید بیمار ہے اسے علاج معالجے کی ضرورت ہے تو کیا  اسے گھر سے نکالا جاسکتا ہے؟ اور اگر اس عورت کو اس کے کہے بغیر اٹھا کر کسی طریقے سے گھر سے نکال لیا جائے پھر کسی دوسرے گھر میں اس کو رکھ لیا جائے تو تعلیق اور طلاق  کا کیا حکم ہوگا؟

وضاحت مطلوب ہے: (1) سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے؟(2) شوہر کا رابطہ نمبر درکار ہے۔

جواب وضاحت:(1) میں ان کا بیٹا ہوں، میری والدہ اور والد کا مسئلہ ہے۔ (2) والد فون نہیں استعمال کررہے اور ہمارے علاقے میں فون چلتا بھی نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر عورت گھر سے نکلی یا جن گھروں میں جانے پر شوہر نے طلاق کو معلق کررکھا ہے ان میں گئی تو اس کو تیسری طلاق واقع ہوجائے گی اور  بیوی شوہر پر حرام ہوجائے گی جس کے بعد دوبارہ رجوع یا صلح کی گنجائش باقی نہ رہے گی اور چونکہ شوہر نے طلاق کو گھر سے نکلنے کے ساتھ معلق کیا  ہے لہٰذا بیوی خود نکلی توطلاق واقع ہوگی اور ا گر اس کو کوئی کہے بغیر اٹھا کر نکال دے تو طلاق واقع  نہ ہوگی اگرچہ  وہ اس فعل پر  راضی بھی ہو۔ اس کے بعد اگر وہ دوبارہ  اس گھر میں آکر نکلی یا جن گھروں میں جانے پر شوہر نے طلاق کو معلق کررکھا ہے ان میں گئی تو طلاق واقع ہوجائے گی۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں شوہر نے جب بیوی کے گھر      سے نکلنے اور فلاں فلاں کے گھر جانے   پر طلاق کو معلق کردیا تو اب جب یہ شرائط پائی جائیں  گی تو طلاق واقع ہوجائے گی اور چونکہ بیوی پہلے ہی سے دو طلاق والی ہے لہٰذا اب یہ شرط پائے جانے کی صورت میں تیسری طلاق واقع ہوجائے گی اور بیوی شوہر پر حرام ہوجائے گی۔

نوٹ: یہ یمین فور نہیں ہے کیونکہ شوہر نے اس شرط کو ہمیشہ کے لیے لگایا ہے اس کا قرینہ یہ ہے کہ بیوی اپنے میکے میں ایک گھر جاتی تھی، شوہر کو اس کا جانا   پسند نہیں تھا اس نے کئی دفعہ اس کو منع کیا بالآخر ایک دن بیوی وہاں گئی تو اس کو غصہ آگیا اور اس نے غصے میں کہا کہ "اب اگر  فلاں فلاں کے گھر گئی تو تجھے طلاق حتیٰ  کہ اگر تو گھر سے نکلی تو بھی تجھے طلاق”

ہدایہ(2/115) میں ہے:

واذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط مثل أن يقول لإمراته: ان دخلت الدار فانت طالق.

فتح القدیر(4/388) میں ہے:

(ومن حلف لا يخرج من المسجد ‌فأمر ‌إنسانا فحمله فأخرجه حنث) لأن فعل المأمور مضاف إلى الآمر فصار كما إذا ركب دابة فخرجت (ولو أخرجه مكرها لم يحنث) لأن الفعل لم ينتقل إليه لعدم الأمر (ولو حمله برضاه لا بأمره لا يحنث) في الصحيح، لأن الانتقال بالأمر لا بمجرد الرضا

البحر الرائق (4/520) میں ہے:

لا يخرج فأخرج محمولا ‌بأمره ‌حنث وبرضاه لا بأمره أو مكرها لا

قوله (لايخرج الخ) فإذا حلف لا يخرج من المسجد مثلا فأمر إنسانا فحمله، وأخرجه حنث؛ لأن فعل المأمور مضاف إلى الآمر فصار كما إذا ركب دابة فخرجت، ولو أخرجه مكرها لم يحنث؛ لأن الفعل لم ينتقل إليه لعدم الأمر، ولو حمله برضاه لا بأمره لا يحنث في الصحيح؛ ‌لأن ‌الانتقال بالأمر لا بمجرد الرضا

المحیط البرہانی (6/230) میں ہے:

وإذا حلف لا يدخل دار فلان فاحتمله إنسان وأدخله وهو ‌كاره لم يحنث

ولو احتمله إنسان وأدخله ‌وهو ‌راض عليه إلا أنه لم يأمره بذلك فقد اختلف المشايخ فيه، ووجدت في «المنتقى» عن أبي حنيفة وأبي يوسف أنه لا يحنث، فعلى قياس هذه المسألة فحينئذ يجب أن يكون قولهما فيما إذا دخل مكرهاً أن لا يحنث

فعلى ‌قياس هذه المسألة  ينبغى أن يكون قولهما فيما إذا ادخل مكرهاً أن لا يحنث. وإن كان أمره بذلك يحنث، لأنه وجد الدخول منه اعتباراً

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved