• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کا اپنی بیوی کی طلاق کو اپنے والدین کی زندگی میں گھر آنے پر معلق کرنا

استفتاء

ایک شادی شدہ شخص جس  کی والدہ ہمیشہ اس کی بیوی کے ساتھ  جھگڑا کرتی ہے، بہتان، الزامات اور تکلیف دہ باتیں مشہور کرتی ہے، جبکہ بہو ساس کے سامنے مکمل طور پر خاموش ہے اور خدمت میں یا عزت میں فرق نہیں کرتی، باوجود اسکے ساس کسی نہ کسی بہانے الزام تراشی، بہتان اور  ہر سنی سنائی بات  اس کے ذمہ لگاتی ہے اور کوئی ثبوت پیش نہیں کرتی، ان باتوں سے تنگ آ کر شوہر نے بیوی کو میکے چھوڑا اور کہا کہ میرے گھر کبھی واپس نہ آنا تاکہ گھر میں امن سکون رہے،پھر اس کی غیر موجودگی میں والدہ نے بیٹے کے سامنے بیوی کے خلاف ناقابل برداشت باتیں کیں جس پر اس نے یہ کہا کہ اگر میری بیوی نے اس عورت کے سامنے ایسی بات کی ہو جس کا آپ ذکر کرتی ہیں تو میں خود کو ختم کر دوں گا یا اسے طلاق دے دوں گا۔ اس کے باوجود بھی والدہ نے جب کوئی پرہیز نہ کیا تو لڑکے نے کہا "اگر بیوی تمہاری اور ابا کی زندگی میں اس گھر میں واپس آئے تو اسے طلاق ہے” اب جبکہ والدین ضعیف ہیں اور دوسری اولاد میں سے کوئی انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں اور دوسری شادی کی صورت میں کسی دوسری بیوی سے امید نہیں کی جاسکتی کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے گی۔ شوہر کے پاس اتنی  گنجائش نہیں کہ اور مکان تعمیر کرے۔ کیا وہ واپس گھر آئے تو اس کو طلاق ہوجائے گی؟ جبکہ بیوی اس وقت حاملہ ہے۔ کیا بچے کی پیدائش سے پہلے واپس آئے تو طلاق نہ ہوگی؟ جبکہ شوہر کے پاس پہلے ہی صرف دو بار طلاق کہنے کا حق تھا۔ پہلے بھی کسی بات سے تنگ آکر اسے ایک طلاق دے چکا تھا اور اس کے پاس دو مرتبہ طلاق  کہنے کا اختیار تھا۔ اگر طلاق نہ ہوگی تو شوہر کے پاس دو مزید طلاقوں کا اختیار ہوگا یا ایک کا ہوگا؟

وضاحت مطلوب ہے : (1)سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے ؟(2)میاں بیوی کا رابطہ نمبر مہیا جائے ۔

جواب وضاحت : (1) سائل کا ذاتی معاملہ ہے، بیوی کو اس معاملے کی کچھ خبر نہیں، اس کی غیر موجودگی میں والد اور والدہ کے سامنے یہ کہا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے والدین کی زندگی میں اگر بیوی اس گھر میں واپس آگئی تو اسے ایک رجعی طلاق ہوجائے گی جس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے اندر رجوع کرنے سے رجوع ہو جائے گا اور نکاح قائم رہے گا اور اگر عدت کے اندر رجوع نہ کیا تو عدت کے بعد دوبارہ اکٹھے رہنے کے لیے باہمی رضامندی سے  نیا نکاح کرنا ہوگا جس میں گواہ بھی ہوں گے اور نیا  مہر بھی مقرر ہوگا۔

نوٹ: اگر شوہر نے واقعتاً اس  واقعہ کے علاوہ ایک طلاق ہی دی تھی تو رجوع  کرنے کی صورت میں آئندہ شوہر کو صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا۔

توجیہ جب کسی شرط پر طلاق کو معلق کیا جائے تو شرط کے پائے جانے سے طلاق ہو جاتی ہے۔ مذکورہ صورت میں شوہر نے طلاق کو والدین کی زندگی تک  بیوی کے گھر آنے پر معلق کیا ہے لہذا اگر بیوی والدین کی زندگی میں اس کے گھر آئی تو شرط پائے جانے کی وجہ سے طلاق واقع ہو جائے گی۔ چونکہ شوہر نے طلاق کے صریح الفاظ استعمال کیے تھے اس لئے ایک رجعی طلاق ہوگی۔ البتہ وہ اپنی بیوی کو پہلے بھی طلاق دے چکا ہے تو اب شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا۔

عالمگیری(1/420)میں ہے:

وإذا أضافه الى الشرط وقع عقيب الشرط إتفاقا مثل أن يقول لإمرأته إن دخلت الدار فأنت طالق.

بدائع الصنائع (3/180) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت.

ہدایہ(2/409)میں ہے:

و اذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها فى العدة و بعد انقضائها لأن حل المحلية باق

در مختار (5/42) میں ہے:

”وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالاجماع“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved