• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ذہنی مریض کی دی ہوئی طلاق کا حکم

استفتاء

میرے شوہر بہت بیمار ہیں شدید ڈپریشن کی وجہ سے انکی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے،وہ اب ایسی باتیں کرتے ہیں جو حقیقت نہیں ہوتیں ڈاکٹر کہتے ہیں کہ انہیں "نفسیاتی دباؤ”(psychotic depression)ہے،وہ حقیقت اور غیر حقیقت میں فرق نہیں کر سکتے،لیکن علاج سے ٹھیک ہو جائیں گےان کی دماغ کی (chemical)آپس میں مل گئی ہیں اور وہ جو بولتے ہیں قصداً نہیں بولتے کبھی ٹھیک سے بات کرتے ہیں ،پھر بات کرتے کرتے دوبارہ اسی حالت میں چلے جاتے ہیں۔مجھے یہ پوچھنا ہے کہ وہ اس حالت میں  اگر وہ طلاق د ے دیں توکیا طلاق واقع ہو جائے گی؟کسی وقت وہ اپنے گھر والوں کو بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ میری بیوی نہیں ہے،ہماری طلاق ہوچکی ہےکبھی کہتے ہیں کہ اس نے دوسری شادی کر لی ہے،کبھی کہتے ہیں کہ میں اسے چھوڑ چکا ہوں اب صرف لکھ کر طلاق دینا باقی رہ گیا ہے،ایک دفعہ مجھے کہنے لگے میں نے تمہیں طلاق دے دی ہے،ڈاکٹر کے پاس جا کر کہنے لگےکہ یہ میری بیوی نہیں ہے یہ میری کزن ہے(حالانکہ ایسا نہیں ہے)کبھی مجھے کہتے ہیں کہ تم چچا کی بیٹی ہو اور بہت ساری باتیں کرتے ہیں  ،تو کیا اس حالت میں بھی طلاق ہو جائے گی؟جبکہ ان کا دماغ ٹھیک کام نہیں کررہا۔

وضاحت مطلوب ہے:1۔شوہر کے بارے میں ڈاکٹر کی رپورٹ ،دوائیوں کی تفصیل ارسال  کریں ،2۔ شوہر کا رابطہ نمبربھی ارسال کریں۔

جواب وضاحت:1۔ارسال کردی ہیں،2۔شوہر کا فون بند ہے فون اس لیے بند رکھا ہے کیونکہ انہیں ہر وقت ڈر رہتا ہے کہ کوئی انہیں مار دے گا،کوئی ان کے پیچھے پڑا ہے نمبر ٹریس ہو رہا ہے،انہیں یہ ڈپریشن کاروبار کی وجہ سے ہوا ہے کیونکہ وہ کافی لوگوں کے مقروض ہیں ،اس لیے فون بند ہے۔

رپورٹ کے بارے میں ڈاکٹر کا مؤقف:

 اس طرح کا مریض ذہنی مریض ہوتا ہےاور اس مرض کی وجہ سے دماغ حاضر نہیں رہتا اور مریض خلاف واقع باتیں کرتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سوال میں ذکر کردہ تفصیلات اور ڈاکٹر کی رائے کے مطابق  آپ کے شوہر کا دماغی توازن درست نہیں ،لہذا اگر طلاق دیتے ہوئے بھی ان کی یہی حالت تھی تو ایسی حالت میں دی گئی طلاق معتبر نہیں۔

ردالمحتار (4/437)میں ہے:

. (قوله والمجنون) قال في التلويح: الجنون اختلال القوة المميزة بين الأمور الحسنة والقبيحة المدركة للعواقب، بأن لا تظهر آثاره وتتعطل أفعالها، إما لنقصان جبل عليه دماغه في أصل الخلقة، وإما لخروج مزاج الدماغ عن الاعتدال بسبب خلط أو آفة، وإما لاستيلاء الشيطان عليه وإلقاء الخيالات الفاسدة إليه بحيث يفرح ويفزع من غير ما يصلح سببا. اهـ. ‌وفي ‌البحر ‌عن ‌الخانية: رجل عرف أنه كان مجنونا فقالت له امرأته: طلقتني البارحة فقال: أصابني الجنون ولا يعرف ذلك إلا بقوله كان القول قوله. اهـ

ردالمحتار(4/439)میں ہے:

‌يقال ‌فيمن ‌اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك الصحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.

فتاوی دارالعلوم دیوبند(9/68)میں ہے:

مجنون  یعنی ایسا شخص جس کی دماغ میں خلقی طور پر کوئی نقصان ہو ، یا کسی آفت اور صدمہ کی وجہ سے ایک ایسا خلل واقع ہوگیا ہو کہ جس کی وجہ سے بھلے اور برے میں اس کو کوئی امتیاز باقی نہ رہے، نہ کسی کام میں اس کی نظر نفع نقصان پر ہو کہ وہ بحکم حدیث رفع القلم عن الثلاثۃ، اس حکم سے خارج ہے جیسا کہ در مختار کی اس عبارت سے ظاہر ہے ، پس اس کی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں ، اوراسی وجہ سے حالت جنون میں مجنون کی طلاق کے متعلق عدم وقوع کا حکم دیا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved