• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

” اگر تم نے گھر سے باہر قدم رکھا تو میری طرف سے تم طلاق والی ہو گی”کہنے سے طلاق کا حکم

استفتاء

میں کل رات سو رہا تھا کہ اچانک میری آنکھ کھل گئی اور دیکھا کہ میری بیوی موبائل استعمال کر رہی ہے،میں نے اسے کہا کہ بند کر دو اس نے کہا ٹھیک ہے لیکن کچھ دیر تک اس نے بند نہیں کیا اور دوبارہ کہنے پر اس نے کہا کہ میں کل اپنا زیور بیچ کر تم سے اچھا موبائل خرید لوں گی جس پر میں نے کہا کہ "اگر تم نے گھر سے باہر قدم رکھا تو میری طرف سے تم طلاق والی ہو گی” جس کے پشتو کے الفاظ یہ تھے”تاکہ کور نہ قدم کیخودو باہر ،زما طرف نہ بہ تہ طلاقہ شوی اے” برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ طلاق کا کیا حکم ہے؟

بیوی سے بیان لینے کے لیے رابطہ کیا گیا تو اس نے مذکورہ واقعہ کی تصدیق کی  اور بتایا کہ میں ابھی گھر سے باہر نہیں نکلی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں فی الحال کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی لیکن اگر بیوی گھر سے  باہر نکلی تو ایک رجعی طلاق واقع ہو جائے گی ،جس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے اندر رجوع ہو سکے گا اور نکاح قائم رہے گااور اگر عدت کے اندر رجوع  نہ کیا تو عدت گزرنے پر نکاح ختم ہو جائے گا ،جس کے بعد دوبارہ اکٹھے رہنے کے لیےگواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔

نوٹ:رجوع کرنے یا دوبارہ نکاح کرنے کے بعد شوہر کے پاس دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

توجیہ:طلاق کو جب کسی شرط کے ساتھ معلق کیا جائےتو شرط کے پائے جانے کے بعد طلاق واقع ہوتی ہے اور مذکورہ صورت میں جب شوہر نے طلاق کے صریح الفاظ کے ساتھ شرط لگائی کہ (اگر تو نے  گھر سے باہر قدم رکھا تو میری طرف سے تم طلاق والی ہو گی)تو گھر سے نکلنے کی شرط پر طلاق معلق ہو گئی ،لہٰذا جیسے ہی شرط پائی جائے گی توایک رجعی  طلاق واقع ہو جائے گی۔

فتاوی عالمگیری(1/420)میں ہے:

 ‌وإذا ‌أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق

ہندیہ(1/ 441) میں ہے:

رجل قال لامرأته: إن ارتقيت هذا السلم أو ‌وضعت رجلك عليه فأنت طالق فوضعت إحدى قدميها على السلم ثم تذكرت فرجعت طلقت ولو قال: إن ‌وضعت قدمي في هذه الدار فأنت طالق فوضع إحدى قدميه في الدار لا يحنث لأن وضع القدم في الدار صار كناية عن الدخول بخلاف ما تقدم كذا في الظهيرية.

ولو قال لامرأته: إن خرجت من هذه الدار فأنت طالق أو ‌وضعت رجلك في ‌السكة فأنت طالق فوضعت القدم في ‌السكة حنث رجل»

المحیط البرہانی (24/274)میں ہے:

وسئل هو أيضاً: عمن قال لامرأته: إن ارتقيت هذا السلم أو ‌وضعت رجلك عليه فأنت طالق فوضعت رجلها عليها فتذكرت الحلف فرجعت، قال: أخاف أنها تطلق. قيل له: أليس هذا اللفظ صار كناية عن الصعود، كما أنّ وضْع القدم في الدار صار كناية عن الرجل؟ قال: إن استقضى في هذا اليمين حنث. قال: إن ارتقيت أو ‌وضعت رجلك عليه والصعود يستفاد بقوله: إن ارتقيت عليها أنه أراد بوضع الرجل نفس الوضع، فهو بمنزلة ما لو قال لامرأته: إن خرجت من هذه الدار ووضعت رجلك في ‌السكة فأنت طالق، وهناك إذا ‌وضعت رجلها في ‌السكة تطلق.

فتاوی عالمگیری(1/470)میں ہے:

‌وإذا ‌طلق ‌الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

بدائع الصنائع(3/283)میں ہے:

أما الطلاق الرجعي ‌فالحكم ‌الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved