• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میسج پر بلا نیت طلاق کی قسم کھانے کا حکم

استفتاء

میرا دوست کسی جگہ پر منتخب تھا جہاں اس کی رہائش بھی تھی ،اپنے گھر سے دور تھااس کا کہنا ہے کہ مجھ سے غلطی میں کسی بچے سے بدکاری ہوگئی اور اس بچے نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ فلاں شخص نے مجھ سے بدکاری کی ہے،پھر میرے دوست نے خود کو  اپنی بدنامی اور سزا سے بچانے کے لیے بچے کے والدین کو یہ میسج کیا کہ” اگر میں نے آپ کےبچے کے ساتھ بدکاری کی ہے تو میری بیوی کو طلاق ہے”  تو ان مکان والوں نے اس کو نکال دیا ،پھر جب وہ اپنے گاؤں گیا تو اسکے دوستوں نے اس سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہواکہ آپ کو نکال دیا گیا ، تو اس نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو سارا واقعہ زبانی سنایا(مجھ سے غلطی ہوئی۔۔۔۔۔میں نےبچے کے والدین کو یہ میسج کیا "اگر میں نے آپ کے بچے کے ساتھ بدکاری کی ہے تو میری بیوی کو طلاق ہے”) لہٰذا بچے کے والدین کو میسج کے ذریعےاور اپنے قریبی رشتہ داروں کو اس واقعے کے بارے میں زبانی طور پر بتایا ،اب سوال یہ ہے کہ کیا اس کی  بیوی کو طلاق ہو گئی؟اگر ہوگئی تو اب کس طرح اس بیوی کو واپس لاسکتاہے؟

شوہرکا بیان :

میں نے صرف جرم  کی سزا اور بدنامی سےبچنے کے لیے بچے کے والدین کو یہ میسج (اگر میں نے آپ کےبچے کے ساتھ بدکاری کی ہے تو میری بیوی کو طلاق ہے) کیا تھا اور میسج کرتے ہوئے میری طلاق کی نیت بھی نہیں تھی اور پھر7/8 مرتبہ اسی واقعے کوانہی الفاظ کے ساتھ  سنایا تھا، الگ سے جملہ نہیں بولا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔

توجیہ:اگر کوئی شخص زمانہ ماضی کے کسی فعل پر  زبان سے طلاق کو معلق کرے اور وہ کام اس نے ماضی میں کیا بھی ہو توفوراً  طلاق  واقع ہو جاتی ہے،لیکن اگر تحریری  طور پر معلق کرے اور وہ تحریر کتابت مستبینہ غیر مرسومہ ہو تو جب تک طلاق کی نیت نہ ہو یا نیت پر دلالت حال (مذکارہ طلاق یا حالت غضب) نہ ہو تو ایسی تحریر سے طلاق واقع نہیں ہوتی، مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر نے صرف میسج کیا ہے اور میسج کی تحریر  ہماری تحقیق میں کتابت مستبینہ غیر مرسومہ ہے اور شوہر نے اس میسج سے طلاق کی نہ  نیت کی ہے اور نہ ہی طلاق کی نیت پر دلالت حال (مذاکرہ طلاق یا حالت غضب) ہے لہٰذا اس میسج سے  کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور بعد میں جو سات یا آٹھ مرتبہ یہ جملہ بولا ہے ،وہ صرف اس واقعے کی خبر دی ہے، الگ سے طلاق دینا مقصود نہیں ،لہذا اس خبر دینے سے بھی  کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

ہندیہ(2/ 52)میں ہے:

غموس، وهو الحلف ‌على ‌إثبات شيء، أو نفيه في الماضي، أو الحال يتعمد الكذب فيه فهذه اليمين يأثم فيها صاحبها، وعليه فيها الاستغفار، والتوبة دون الكفارة.

وأما الحلف بالطلاق، والعتاق، وما أشبه ذلك فما يكون على أمر في المستقبل فهو كاليمين المعقود، وما يكون على أمر في الماضي فلا يتحقق اللغو، والغموس، ولكن إذا كان يعلم خلاف ذلك، أو لا يعلم فالطلاق واقع، وكذلك الحلف ينذر؛ لأن هذا تحقيق، وتنجيز كذا في الإيضاح.

فتاویٰ النوازل لابی اللیث السمرقندی(ص215) میں ہے:

ثم الكتاب إذا كان مستبيناً غير مرسوم كالكتابة على الجدار وأوراق الأشجار وهو ليس بحجة من قدر على التكلم فلا يقع إلا بالنية والدلالة.

بدائع الصنائع  (3/163 )میں ہے:

ولو ‌قال ‌لامرأته: أنت طالق فقال له رجل: ‌ما ‌قلت؟ فقال: طلقتها أو قال قلت: هي طالق فهي واحدة في القضاء؛ لأن كلامه انصرف إلى الإخبار بقرينة الاستخبار.

امداد الفتاوی(5/288)میں ہے:

سوال:** نے کسی وجہ سے اپنی امرأۃ ہندہ سے حالت غضب میں ایک مرتبہ بلفظ صریح کہا کہ میں نے تجھ کو طلاق دیدیا اس لفظ کو سنتے ہی ہندہ نے اپنے شوہر سے کہا کہ کیا کہا اس پر شوہر پھر اُس لفظ کا اعادہ کر کے ساکت ہوگیا چند منٹ یعنی تھوڑے ہی عرصہ کے بعد شخص ثالث نے پوچھا ہندہ کے شوہر سے کہ کیا ہوا ہے؟ اُس وقت میں بھی ** نے اُسی لفظ کو کہہ کر بتلا دیا اب معلوم ہونا چاہیے کہ طلاق رجعی ہے یا مغلظ؟

جواب: سوال کے جواب میں اس کا واقع ہونا قرینہ ہے اس کا کہ دوسری تیسری طلاق دینا مقصود نہیں بلکہ پہلی طلاق کی خبر دینا مقصود ہے اس لئے وہ ایک ہی طلاق واقع ہوگی دوسری تیسری واقع نہ ہوگی اور چونکہ صریح لفظ سے دی گئی ہے اس لئے رجعی ہوگی اور عدت کے اندر رجعت جائز ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved