• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصہ میں شوہر کاکہنا کہ ” میں تمہیں طلاق، طلاق، طلاق ،دیتا ہوں”

استفتاء

مسئلہ یوں ہے کہ میرا گھر والا شوگر، بلڈ پریشر کا مریض ہے اور ان کے چار دفعہ گردے واش ہوئے ہیں اور اس وجہ سے ان کو غصہ بہت زیادہ آجاتا ہے جو کہ ان کی برداشت سے باہر ہوجاتا ہے اور ان کو نہیں پتہ چلتا کہ وہ کیا بول رہے ہیں۔ ان کی بہن کی طلاق کا مسئلہ عدالت میں چل رہا تھا اور اس دن بھی ان کے ساتھ لڑائی ہوئی تھی اور وہ غصہ میں گھر آئے اور پھر اس دن میری طبیعت بھی کچھ خراب تھی اور ہماری آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی ہوگئی اور پھر لڑائی حد سے تجاوز کرگئی اور ان کا غصہ جنون اور پاگل پن کی حد پر تھا اور پھر ان کو پتہ نہیں لگا اور ایک دم سےغصہ میں بولا کہ  ثمینہ میں تمہیں طلاق طلاق طلاق دیتا ہوں اور اس دوران انہوں نے ایک سانس تک نہیں لیا ۔ ان کی کوئی نیت یا ارادہ نہیں تھا طلاق دینے کا۔

وضاحت مطلوب ہے: شوہر نے مار پیٹ یا توڑ پھوڑ وغیرہ بھی کی تھی یا نہیں؟

جواب وضاحت: لڑائی جھگڑاور چیخنا چلانا تو ہوا لیکن  مار پیٹ یا توڑ پھوڑ کی نوبت نہیں آئی۔

شوہر کا بیان:

میں نے اپنے ہوش و حواس میں بیوی کے مطالبے پر اسے تین طلاقیں دی تھیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تین طلاقیں ہو چکی ہیں اور بیوی شوہر پر حرام ہو چکی ہے۔ اب رجوع یا صلح کی کوئی گنجائش نہیں۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر نے غصہ کی حالت میں طلاق دی ہے  لیکن غصہ کی حالت ایسی نہ تھی کہ اسے معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کررہا ہے اور نہ  ہی غصے کی وجہ سے  اس سے کوئی خلاف عادت قول یا فعل سرزد ہوا ہے اور غصہ کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے نیز شوہر یہ اقرار بھی کررہا ہے کہ میں نے اپنے ہو ش وحواس میں طلاق دی ہے  لہٰذا مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔

ہندیہ (1/355) میں ہے:

رجل قال لامرأته أنت طالق و طالق و طالق و لم يعلقه بالشرط إن كانت مدخولة طلقت ثلاثاً

فتح القدیر مع الہدایہ (4/158) میں ہے:

و إن كان الطلاق ثلاثاً في الحرة و ثنتين في الأمة لم تحل حتى تنكح زوجاً غيره نكاحاً صحيحاً و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها

رد المحتار(4/439) میں ہے:

وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه…………. فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن ادراك صحيح

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved