• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

"20دفعہ طلاق ہو” کا حکم

استفتاء

شوہر کا بیان:

می***   کی اپنی بیوی*** کے ساتھ گھریلو تنازعہ پر موبائل کے میسجز میں تُو تُو مَیں مَیں ہوگئی جس پر میری بیوی نے مجھے کہا کہ آپ مجھے طلاق دیدیں تو میں نے کہا کہ آپ مجھے کال کریں تاکہ میں آپ کو طلاق دیدوں، اس نے کال کی اور میں نے موبائل پر کہا کہ "آپ کو میں نے طلاق دیدی” پھر میں چُپ ہوگیا تو اس نے کہا کہ آپ چپ کیوں ہوگئے بتاؤ؟  پھر میں نے اس کو کہا کہ  "آپ مجھ پر 20 دفعہ طلاق ہو” پھر اس نے موبائل آف کردیا  ، میں نے اس کو طلاق 20 دفعہ کہا لیکن میری  بات کا مطلب صرف اس کو دھمکی دینا تھا  میری نیت وارادہ طلاق دینے کا نہیں تھا  چونکہ اس نے کال ملائی اور میں غصے میں تھا  اس لیے غصے کی حالت میں میرے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے تھے۔ میری نیت وارادہ خدا کو حاضر وناظر مان کر صرف ڈرانا اور دھمکی دینا تھا ۔ اب کیا حکم ہے؟

بیوی کا بیان:

میں ** یہ بیان دیتی ہوں کہ جب فون کال پر طلاق کی بات ہو رہی تھی تو اس دوران پہلے اس نے دو  مرتبہ”تم مجھ پر طلاق ہو” کہا اور تیسری مرتبہ  یہ کہا کہ "تم مجھ پر 20 دفعہ طلاق ہو” میرے پاس کوئی گواہ نہیں ہے،ہماری بات موبائل پر ہوئی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے ، لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر کا یہ کہنا  ہے کہ طلاق کے الفاظ بولتے وقت اس کی طلاق کی نیت نہ تھی لیکن شوہر نے چونکہ طلاق کے صریح الفاظ استعمال کیے ہیں جن میں طلاق کا واقع ہونا شوہر کی نیت پر موقوف نہیں ہوتا اس لیے مذکورہ صورت میں جب شوہر نے بیوی کے مطالبے پر بیوی کو کہا کہ ” آپ کو میں نے طلاق دیدی” تو ان الفاظ سے ایک  رجعی  طلاق ہوگئی پھر اس کے بعد جب شوہر نے دوبارہ یہ  کہا کہ "آپ مجھ پر 20 دفعہ طلاق ہو” تو ان الفاظ سے باقی دو طلاقیں بھی واقع ہوگئیں۔

الدرالمختار(4/443) میں ہے:

‌‌باب الصريح (‌صريحه ‌ما ‌لم ‌يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) (ويقع بها) أي بهذه الالفاظ (واحدة رجعية).

 

فتاوی  عالمگیری (1/380) میں ہے:

رجل قال لامرأته ‌هزار ‌طلاق ترا وقع الثلاث رجل قال لامرأته في حال مذاكرة الطلاق ‌هزار ‌طلاق بدامنت دركردم طلقت ثلاثا.

الدر مختار(4/423) میں ہے:

(والبدعي ‌ثلاث ‌متفرقة) أو اثنتان بمرة أو مرتين. في طهر واحد و في الشامىة ”قوله ثلاث متفرقة “ وكذا ‌بكلمة ‌واحدة بالأولى، وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث.

فتاوی  عالمگیری(1/472) میں ہے:

إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدةوبعد انقضائها وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو ‌يموت ‌عنها كذا في الهداية .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved