• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

"اگر تم میرے کاروبار میں شامل ہوئے تو تمہاری والدہ مجھ پر تین دفعہ طلاق ہوگی” کا حکم

استفتاء

میرے والد صاحب نے رمضان میں میرے بھائی سے جھگڑا کیا جس کی وجہ سے والد صاحب نے اسے قسم دی کہ "اگر تم میرے کاروبار میں شامل ہوئے تو تمہاری والدہ مجھ پر تین دفعہ طلاق ہوگی”  اب سوال یہ ہے کہ:

1۔ اس کا کیا حکم ہے؟

2۔کیا اب یہ  قسم ختم کی جاسکتی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) مذکورہ صورت میں آپ کے بھائی اگر کاروبار میں شامل ہوئے تو آپ کی والدہ کو تین طلاقیں ہو جائیں گی جس کی وجہ سے  آپ کی والدہ آپ کے والد پرحرام ہو جائیں گی جس کے بعد نہ صلح ہو سکے گی اور نہ رجوع کی گنجائش ہو گی ۔

(2)  یہ قسم ختم  نہیں کی جاسکتی البتہ تین طلاقوں سے خلاصی کی صورت یہ ہے کہ آپ کے والد آپ کی والدہ کو ایک طلاق جو کہ بہتر ہے کہ بائنہ ہو دیدیں(مثلا یوں کہدیں کہ تجھے ایک طلاق بائن ہے ) اس کے بعد آپ کی والدہ طلاق کی عدت گزاریں ۔جب عدت مکمل ہو جائے اس وقت آپ  کے بھائی کاروبار میں شامل ہوجائیں اس سے قسم پوری ہوجائے گی لیکن تین طلاقیں واقع نہ ہوں گی پھر اس کے بعد باہمی رضا مندی سے نئے مہر کے ساتھ  کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کر لیں۔نکاح کے بعد آپ کے بھائی کی کاروبار میں شمولیت کی وجہ سے   کوئی طلاق واقع نہ ہو گی ۔

نوٹ: اس صورت میں دوبارہ نکاح کرنے کے بعد  آئندہ آپ کے والد  کو دو طلاقوں کا حق حاصل ہو گا ۔

توجیہ : جب طلاق کو کسی شرط پر معلق کیا جائے تو شرط پائے جانے کی وجہ سے طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔ مذکورہ صورت میں آپ کے والد  نے اس جملے  ” اگر تم میرے کاروبار میں شامل ہوئے تو تمہاری والدہ مجھ پر تین دفعہ طلاق ہوگی ” سے تین طلاقوں  کو آپ کے بھائی کی کاروبار میں شمولیت پر معلق کیا ہے ۔لہذا جب بھائی کاروبار میں شامل ہو گا   تو آپ کی والدہ پر  تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی ۔ اور اگر آپ کے والد آپ کی والدہ  کو ایک بائنہ طلاق دیدیں  اور عدت گزر جانے کے بعد آپ کا بھائی کاروبار میں شامل ہوجائے  تو شرط پوری ہو جائے گی اور چونکہ  آپ کی والدہ اس وقت  نکاح میں نہ ہوں  گی  اس لیے کوئی طلاق واقع نہ ہو گی ۔اور شرط پوری ہو چکی ہو گی اس لیے دوبارہ نکاح کرنے  کے بعد   کاروبار میں شمولیت کی وجہ سے طلاق واقع نہ ہو گی ۔

 

فتاوی عالمگیری(1/420) میں ہے:

وإذا أضافه إلى الشرط ‌وقع ‌عقيب ‌الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق

المحيط البربانی(5/59) میں ہے:

و يعتبر من جانب الزوج يميناً  و تعليقاً للطلاق لقبولها، حتى لو قال لها: خالعتک على کذا، ثم رجع عنه قبل قبول المرأة لا يصح رجوعه

الدر المختار (4/450) میں ہے:

ومن الالفاظ المستعملة، الطلاق ‌يلزمني، والحرام ‌يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف

 وفي الشامية: ففي الذخيرة وعن ابن سلام فيمن قال: إن فعلت كذا ‌فثلاث ‌تطليقات علي أو قال علي واجبات يعتبر عادة أهل البلد ………… وقال: أقول الحق. الوقوع به في هذا الزمان لاشتهاره في معنى التطليق

شامی (3/ 355) میں ہے:

 (وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلا لا، فحيلة ‌من ‌علق ‌الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved