• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق

استفتاء

گزارش ہے کہ 21 رمضان کو ساری رات میں شراب پیتا رہا اور میں حلفا کہتا ہوں کہ مجھے کوئی ہوش نہیں تھی اور اپنے پاؤں پر بھی کھڑا  نہیں ہو سکتا تھا ۔ مجھے ہوش  نہیں تھی کہ میری بیگم سے میری کوئی بات چیت ہوئی تھی یا نہیں ۔ 22 رمضان کو جب میں نے کھانا مانگا تو بیوی نے کہا کہ آپ نے تو مجھے صبح طلاق دے دی تھی  جبکہ مجھے اس بات کا پتا ہی نہیں کہ میں نے یہ الفاظ  بولے ہیں ۔ میرے گھر میں کوئی جھگڑا ہوتا تو میں یہ الفاظ بولتا  جب جھگڑا ہی نہیں تھا تو مجھے الفاظ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔میں نے داتا دربار جا کر اپنے بھانجے کے سامنے حلفا بولا ہے کہ میں نے یہ الفاظ نہیں بولے اور نہ مجھے یاد ہے ۔پھر اپنے تینوں بیٹوں کے سامنے فجر کی نماز کے بعد   قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ مجھے یاد  نہیں کہ میں نے یہ الفاظ بولے ہوں ۔ لہذا مجھے میرا گھر بسانے کے لیے فتوی دیا جائے ۔ میرے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے تاکہ میں ان کا مستقبل اچھا بنا سکوں ۔ اور میں نے توبہ کی ہے کہ اس لعنت (شراب ) کے قریب بھی نہ جاؤں گا اور اس بات کا بھی بیان حلفی میں نے اپنے بچوں کو لکھ کر دیا ہے ۔ بلکہ میں نے گھر والوں کو کہا ہے کہ چلو عمرہ کرنے چلتے ہیں وہاں اللہ کے گھر جا کر میں قسم دیتا ہوں کہ مجھے تمہارے کمرے میں جانے کا بالکل علم ہی نہیں ہے ۔ میرا بیٹا زین اس وقت وہاں موجود تھا پہلے وہ کہہ رہا تھا کہ میں نے بھی طلاق کے الفاظ سنے ہیں لیکن بعد میں جب اس کو بتایا گیا کہ اگر جھوٹ بولا تو بہت سخت گناہ ہو گا اور سارا وبال تمہارے سر ہو گا تو اس نے یہ کہا کہ میں نے طلاق کے الفاظ نہیں سنے بلکہ صرف یہ معلوم ہے کہ والدہ نے مجھے اٹھایا اور کہا دیکھو تمہارے ابو کیا کہہ رہے ہیں اس کے بعد ابو اپنے کمرے میں چلے گئے اور دوبارہ شراب پینا شروع کردی ۔

بیوی کا موقف :

رات کو میرے شوہر نے شراب پی ہوئی تھی اور صبح آٹھ بجے کے قریب میرے پاس آئے اور گالیاں دے کر طلاق دے دی ۔ ایک بار گالی دی اور کہا "میں نے تجھے طلاق دی” پھر گالی دی اور کہا” میں نے تجھے طلاق دی” پھر گالی دی اور کہا” میں نے تجھے طلاق دی”  جب دوسری طلاق دی تو میں نے بیٹے کو اٹھایا کہ دیکھو تمہارے والد کیا کہہ رہے ہیں بیٹے نے بھی کہا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں تو اس پر میرے شوہر نے کہا کہ اس کو گواہ بھی بنا لو پھر گالی دی اور کہا "میں نے تجھے طلاق دی” میرے شوہر اس وقت پورے نشے میں نہیں تھے بلکہ 20 فیصد نشے میں تھے کیونکہ شراب رات کو پی تھی ۔ میں نے ان کے ساتھ 15 سال گزارے ہیں مجھے پتا ہے کب نشے میں ہوتے ہیں اور کب نہیں ۔اگر رات کو تین بجے طلاق دی ہوتی تو میں بھی کہتی بالکل نشے میں ہیں ۔ صبح آٹھ بجے پورے نشے میں نہیں تھے بچے کو گواہ بھی بنایا اور پھر اپنے کمرے میں چلے گئے ۔ میرا ضمیر اب ملامت کرتا ہے دوبارہ ان کے پاس جانے سے کیونکہ دو تین جگہ سے معلوم کیا تو انہوں نے کہا کہ طلاق ہو گئی ہے ۔

***(بیٹا)  کا بیان :

 جب یہ معاملہ پیش آیا تو میں وہاں سو رہا تھا والدہ نے مجھے اٹھایا کہ دیکھو تمہارے ابو کیا کہہ رہے ہیں ۔ میں نے خود طلاق کا لفظ نہیں سنا ۔ میں نے ابو کو کہا آپ اپنے کمرے میں جائیں رمضان ہے کیا کر رہے ہیں ؟ ابو کی حالت اس وقت ایسی تھے جیسے بندہ سو کر اٹھتا ہے پوری طرح نشے میں نہیں تھے لیکن کچھ نہ کچھ نشہ ضرور تھا ۔ اور بعد میں کمرے میں جا کر پھر شراب پینا شروع کر دی تھی ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

بیوی کے بیان کے مطابق چونکہ شوہر 20 فیصد نشے میں تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً 80 فیصد نشے میں نہیں تھے اس لیے کم از کم بیوی کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی کا اپنے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں اور چونکہ تین طلاقوں کے بعد صلح یا رجوع کی بھی گنجائش نہیں اس لیے بیوی کے لیے اپنےبیان کے مطابق صلح یا رجوع کی بھی  گنجائش نہیں۔

توجیہ : راجح اور مفتی بہ قول کے مطابق  تونشے کی حالت میں زجراً طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔ جبکہ احناف میں سے ہی بعض فقہاء کا موقف ہے کہ نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی  لیکن اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ شوہر اس قدر نشے میں ہو کہ اس کو معلوم ہی نہ  ہوکہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے اور اس کی گفتگو میں ہذیان(اول فول بکنا) غالب ہو جبکہ مذکورہ صورت میں بیوی کے نزدیک شوہر کی حالت ایسی نہ تھی لہٰذا  بیوی کے حق میں اس قول کے مطابق بھی تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں اور اب رجوع یا صلح کی گنجائش نہیں ہے۔

فتح القدير) 3/ 472)میں ہے:

و في مسئلة طلاق السكران خلاف عال بين التابعين و من بعدهم فقال بوقوعه من التابعين سعيد بن المسيب و عطاء و الحسن البصري و إبراهيم النخعي و ابن سرين و مجاهد و به قال مالك و الثوري و الأوزاعي و الشافعي في الأصح و أحمد في رواية و قال بعدم وقوعه القاسم بن محمد و طاؤوس و ربيعة و الليث و أبو ثور و زفر و هو مختار الكرخي و الطحاوي و محمد  بن سلمة من مشائخنا.

رد المحتار (1/ 74)میں ہے:

مذهب الحنفية المنع عن المرجوح حتی لنفسه لكون المرجوح صار منسوخاً و قيده البيري بالعامي أي الذي لا رأي له يعرف به معنی النصوص حيث قال: هل يجوز للإنسان العمل  بالضعيف من الرواية في حق نفسه نعم إذا كان له رأي، أما إذا كان عامياً فلم أره، لكن مقتضی تقييده بذي الرأي انه لا يجوز للعامي ذلك، قال في خزانة الروايات: العالم الذي يعرف معنی النصوص و الأخبار و هو من أهل الدراية يجوز له أن يعمل عليها و إن كان مخالفاً لمذهبه قلت لکن هذا في غير موضع الضرورة فقد ذكر في حيض البحر في بحث ألوان الدماء أقوالاً ضعيفة ثم قال و في المعراج عن فخر الأئمة: لو أفتی مفت بشئ من هذه الأقوال في مواضع الضرورة طلباً للتيسر كان حسناً.اھ

شامی (3/239) میں ہے:

ان المراد ان يکون غالب کلامه هذيان فلونصفه مستقيمافليس بسکرفيکون حکمه حکم الصحاة في اقراره بالحدود وغيرذلک

 

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved