• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عدد طلاق میں میاں بیوی کا اختلاف

استفتاء

میں پیشے کے اعتبار سےMBBS ڈاکٹر ہوں اورمیرے شوہر جانوروں کے DVM ڈاکٹر ہیں،لیکن اپنا کاروبار کرتے ہیں،ہماری شادی تقریبا تین سال پہلے ہوئی ،ابھی تک کوئی اولاد نہیں ہوئی ،زندگی کا یہ عرصہ ٹھیک گزرا،کبھی کبھار کوئی لڑائی جھگڑا ہوا تو کمرے  تک محدود رہا۔اب دو ماہ قبل میں نائٹ ڈیوٹی پر موجود تھی اور میرے شوہر اپنی کمر درد کے سلسلے میں ایک ڈاکٹر سے معائنے کے لیے آئے جس پر ڈاکٹر نے میرے شوہر کو کچھ مسائل سے آگاہ کیا پھر اس کے بعد میرے شوہر رات کو دو بجے مجھ سے ملنے کے لیے ہسپتال آئے اور میرے شوہر نے میرے نمبر پر کافی کالز کیں، لیکن میں مریضوں کے آپریشن میں مصروف تھی اور دیر سے ان سے ملی،جب میں اپنے شوہر کے پاس آئی تو انہوں نے شراب پی رکھی تھی،لیکن اتنے ہوش و حواس میں تھے کہ گاڑی چلا رہے تھے مجھے ساتھ لے گئے اور برا بھلا کہا اور ایک دفعہ کہا کہ”میں نے تمہیں طلاق دی” یہ الفاظ میں نے خود سنے تھے،میں خاموش رہی اور وہ واپس مجھے دوبارہ ہسپتال چھوڑ کر چلے گئے اس کے بعد تقریباایک ماہ  ہم میاں بیوی ساتھ رہے اور اس بات کا ہم دونوں نے کوئی ذکر نہیں کیا، ایک ماہ کے بعد ایسے ہی باتوں میں لڑائی شروع ہوئی،جبکہ میں خاموش تھی تو میرے شوہر نے اپنے باپ اور ماں کے سامنے مجھے دو دفعہ طلاق دی جس کے الفاظ یہ تھے”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” پھر میرے سسر نے میرے شوہر کے منہ پر ہاتھ رکھ کر انہیں مزید کچھ کہنے سے روکا اس وقت میرے شوہر نے کوئی شراب نہیں پی تھی اب میرے شوہر اور سسر بضد ہیں کہ کچھ بھی نہیں ہوا میں فضول میں اپنے والدین کے گھر آ کر شور مچا رہی ہوں۔

وضاحت مطلوب ہے:1۔پہلی مرتبہ طلاق دیتے وقت آپ کو کیسے پتہ چلا کہ آپ کے شوہر نے شراب پی رکھی تھی؟2۔ کوئی ایسا کام جس سے معلوم ہوتا ہو کہ آپ کے شوہر نے شراب پی رکھی تھی؟3۔آپ کے ساتھ کوئی اور بھی تھا؟

جواب وضاحت:1۔انھوں نے خود بتایا تھا کہ میں نے Drinkکی ہوئی ہے،2۔کوئی کام یا بات  ایسی نہیں تھی کہ جس سے معلوم ہوتا ہوکہ یہ نشے میں تھے بالکل ہوش حواس میں تھے،کوئی اور بھی انہیں دیکھتا تو یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ نشے میں ہیں ،3۔کوئی نہیں تھا۔

شوہر کا بیان:

میں  نشہ نہیں کرتا اور نہ ہی اس دن میں نے کوئی نشہ کیا ہوا تھا اور اس دن میں نے اپنے ٹیسٹ بھی کروائے تھے اور میں نے گاڑی بھی خود چلائی تھی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے طلاق کے الفاظ نہیں کہے تھے البتہ ہماری لڑائی ضرور ہوئی تھی،لیکن طلاق کے الفاظ نہیں کہے تھے،اس کے علاوہ دو مرتبہ میں نے بیوی کو یہ الفاظ کہے تھے”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”جن کی میں تصدیق کرتاہوں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر کے حق میں دو طلاقیں ہوئی ہیں  تاہم  بیوی کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں، جن کی وجہ سے بیوی کے لیے شوہر کے ساتھ رہنے کی گنجائش نہیں ہے۔

توجیہ:طلاق کے معاملے میں بیوی قاضی کی حیثیت رکھتی ہے،لہذا جب بیوی خودشوہر سے  طلاق کے الفاظ سن لے یا کسی معتبر ذریعے سے اسے شوہر کا طلاق دینا معلوم ہو جائےتوبیوی کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مذکورہ صورت میں گاڑی میں لڑائی کے وقت چونکہ  بیوی  نے  طلاق کے الفاظ شوہر سے  خود سنے تھے اس لیے ان الفاظ  سے ایک رجعی طلاق واقع ہو چکی تھی،اس کے بعد چونکہ میاں بیوی اکٹھے رہتے رہے اس لیے رجوع ہو گیا تھا ۔

اس کے بعد شوہر نے جب والدین کے سامنے دو مرتبہ طلاق کا جملہ استعمال کیا تو اس سے بیوی کے حق میں دوسری اور تیسری طلاق بھی واقع ہو گئی ہے اور تیسری طلاق کے بعد صلح یا رجوع کی گنجائش نہیں ہوتی۔

ردالمحتار(4/449)میں ہے:

والمرأة كالقاضي ‌إذا ‌سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه.

بدائع الصنائع(3/101) میں ہے:

أما ‌الصريح فهو اللفظ الذي لا يستعمل إلا في حل قيد النكاح، وهو لفظ الطلاق أو التطليق مثل قوله: ” أنت طالق ” أو ” أنت الطلاق، أو طلقتك، أو أنت مطلقة ” مشددا، سمي هذا النوع صريحا؛ لأن الصريح في اللغة اسم لما هو ظاهر المراد مكشوف المعنى عند السامع من قولهم: صرح فلان بالأمر أي: كشفه وأوضحه، وسمي البناء المشرف صرحا لظهوره على سائر الأبنية، وهذه الألفاظ ظاهرة المراد؛ لأنها لا تستعمل إلا في الطلاق عن قيد النكاح فلا يحتاج فيها إلى النية لوقوع الطلاق؛ إذ النية عملها في تعيين المبهم ولا إبهام فيها.

بدائع الصنائع(3/295) میں ہے:

‌وأما ‌الطلقات ‌الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

بدائع الصنائع(3/283)میں ہے:

أما الطلاق الرجعي ‌فالحكم ‌الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved