• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

رخصتی کے پہلے ساس کی طرف سے دیے ہوئے زیور کا حکم

استفتاء

ایک لڑکا جس کا نکاح کے وقت بیس ہزار روپیہ مہر مقرر ہوا اور لڑکے کی والدہ نے پہلے بھی اپنی بہو کا  زیور بنایا تھا جو کہ مہر کا حصہ نہیں تھا جس طرح اس نے اپنی پہلی بہو کے لیے زیور بنایا تھا اور شادی کے دو سال بعد دیا تھا اسی طرح اس بہو کو بھی بنادیا تھا لیکن رخصتی سے پہلے ہی دے دیا اور لڑکے کو یہ معلوم تھا کہ والدہ زیور بنا رہی ہے  لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ والدہ نے بہو تک پہنچا دیا ہے اور لڑکا یہ چاہ رہا تھا کہ وہ زیور خود اپنی بیوی کو مہر کے طور پر دے دے۔ اب پوچھنا  یہ ہے کہ وہ زیور جو لڑکے کی والدہ نے اپنی بہو کو دیا ہے اس کو مہر میں شمار کر سکتے ہیں یا شوہر پر بیس  ہزار لازم ہے جو وہ ادا کرے؟

وضاحت مطلوب ہے:  لڑکے کی والدہ نے یہ زیور اپنی بہو کو بطور ہبہ دیا ہے یا بطور عاریت؟ اگر بطور عاریت دیا ہے تو اپنی ملک میں رکھنا مقصود ہے یا اپنے بیٹے کو دینا مقصود ہے؟

جواب وضاحت: اپنی بہو کو بطور ملک دیا تھا اگرچہ ہبہ یا عاریت کی دیتے ہوئے صراحت  نہیں کی لیکن ذہن میں یہی تھا کہ بہو کو ہبہ ہے اور اس کی ملک ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اس زیور کو مہر میں شمار نہیں کر سکتے لہذا شوہر پر بیس ہزار مہر ادا کر نا لازم ہے۔

تو جیہ :والدہ نے اپنی بہو کو بطور ملک زیور دیا ہے جس کی وجہ سے  وہ زیور بہو  کی ملکیت ہوگیا لہٰذا  شوہر اس زیور کو اپنے مہر میں شمار نہیں کر سکتا ۔

شامی(4/297) میں ہے:

ولو بعث الى امراته شيئا ولم يذكر جهة عند الدفع غير جهة المهر كقوله لشمع او حناء ثم قال انه من المهر لم يقبل قنية لوقوعه هدية فلا ينقلب مهرا.

قوله (ولم يذكر المراد) انه لم يذكر المهر ولا غيره .

شرح المجلہ(مادہ:97) میں ہے:

لا يجوز لاحد ان ياخذ مال احد بلا سبب شرعي.

بدائع الصنائع (2/ 287) میں ہے:

«المهر في ‌النكاح ‌الصحيح يجب بالعقد؛ لأنه إحداث الملك، والمهر يجب بمقابلة إحداث الملك؛ ولأنه عقد معاوضة وهو معاوضة البضع بالمهر فيقتضي وجوب العوض كالبيع، سواء كان المهر مفروضا«في العقد أو لم يكن عندنا.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved