• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غیر کے فعل پر طلاق کو معلق کرنا

استفتاء

میں (*** ) اور میرا بھائی(***) ہم سبزی منڈی میں کام کرتے ہیں جوکہ میرے ابو جی اور چچا کا مشترکہ کاروبار ہے اس کاروبار کی سالانہ آمدن میں جو بھی نفع ونقصان ہوتا ہے وہ میرے والد محترم اور چچا جان پر برابر تقسیم ہوتا ہے اور ہم بھائی جو ادھر کام کرتے ہیں  ہمارا ماہانہ خرچ مقرر ہے۔

اس کاروبار  کا منشی میں ہوں۔ عید سے دو دن قبل یعنی منگل والے دن جو نقد رقم میں  مکان سے چچا کے گھر لایا تھا اس میں سے پانچ ہزار روپے میرے بھائی کی جیب میں رہ گئے تھے  اس نقد رقم کو پورا کرنے کے لیے میں نے جب بھائی سے پیسے مانگے  تو وہ شدید خفا ہوگئے کہ مجھ سے تم نے کیوں پیسے مانگے ہیں؟ پھر آپس میں بد کلامی شروع ہوگئی اور بحث میں بھی شدت آگئی۔ میرے اکثر ہی اس بھائی کے ساتھ ایسے معاملات ہوجاتے تھے پھر اس بار میں انتہائی دل برداشتہ ہوگیا اور تنگ آچکا تھا اور شدید غصے میں  ابو جی کے سامنے یہ فیصلہ کیا کہ "ابو جی یہ اب آپ کے ہاتھ میں ہے آپ یا تو اس کو  کام پر رکھ لو  یا مجھے ۔اگر ہم دونوں اس کاروبار میں( جو کہ سبزی منڈی میں کررہے ہیں)  کام کریں تو میری بیوی کو تین طلاقیں” تو جیسے ہی میں نے یہ شرط والد صاحب کے سامنے رکھی تو انہوں نے فوراً ہی چھوٹے بھائی کو کام سے نکال دیا اور کہا کہ تم (یعنی *** ) کام کرو گے اور *** چھوٹا بھائی کام پر نہیں جائے گا۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ اگر *** ضد سے(کہ میری بیوی کو  طلاق  ہوجائے)  بغیر کسی کام کے ہمارے  اس کاروبار میں گھسے یا دکان پر جائے تو  کیا طلاق واقع ہوجائے گی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرمحمد  *** اپنے طور پر کام میں دخل دے اور دکان میں گھسے تو اس سے کوئی طلاق واقع نہ ہوگی کیونکہ  شرط اس بات پر ہے کہ والد محمد  *** کو کاروبار میں رکھے اور پھر ***، *** کے ساتھ کام کرے جبکہ اپنے طور پر کاروبار میں دخل اندازی کرنے میں یہ بات نہیں پائی جائے  گی لیکن اگر آئندہ والد  محمد ***  کو کام میں رکھے پھر *** محمد   *** کے ساتھ کام کرے  تومحمد *** کی بیوی کو تینوں طلاقیں واقع  ہوجائیں گی۔لہٰذا   تین طلاقوں سے بچنے کے لیے یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ *** اپنی بیوی کو فی الحال  ایک بائنہ  طلاق دیدے  یعنی *** یوں کہہ دے کہ "میں نے اپنی بیوی  کو ایک بائنہ طلاق دی” پھر محمد *** کی بیوی طلاق کی عدت (تین ماہواریاں )  گذارے۔ جب عدت  گذر جائے تو والد *** کو کام پر  رکھ لے اور *** ، *** کے ساتھ کام کرے تو اس طرح شرط پائی جائے گی اور بیوی کے نکاح میں نہ ہونے کی وجہ سے تین طلاقیں واقع نہ ہوں گی اور شرط ختم ہوجائے گی۔ اس کے بعد ***  دوبارہ نکاح کرلے تو پھر *** کے  محمد *** کے ساتھ کام کرنے سے بھی طلاق واقع نہ ہوگی۔

نوٹ: دوبارہ نکاح کرنے کے بعد محمد *** کے لیے دو طلاقوں کااختیار رہ جائے گا۔

ہندیہ(1/420) میں ہے:

وإذا ‌أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق

اللباب فى شرح  الكتاب (3/26) ميں ہے:

 (‌وإذا ‌أضافه) أي الطلاق (إلى) وجود (شرط وقع عقيب) وجود (الشرط) …………..  ويصير عند وجود الشرط كالمتكلم بالطلاق في ذلك الوقت

ہندیہ (1/473) میں ہے:

وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية”

الدرالمختار( 5/544۔545)میں ہے:

(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وإلا لا، ‌فحيلة ‌من ‌علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

”فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved