• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دو صریح طلاقیں دینے کے بعد طلاقنامے بھیجنے کا حکم

استفتاء

اڑھائی سال قبل ایک لڑائی کے دوران اپنی بیوی سے یہ الفاظ بول دیے تھے کہ"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا  ہوؓ” چنانچہ اسی دن صلح  بھی ہوگئی تقریباً پانچ ماہ  قبل پھر لڑائی ہوئی پھر میں نے 23/06/20 کو طلاق کی نیت سے طلاق کا پہلا نوٹس بھیج دیا تھا ٹھیک ایک مہینے بعد 23/07/20 کو دوسرا نوٹس بھیج دیا تھا۔ اب  دوسرے نوٹس کے بعد ہمارا رابطہ ہوا ہے تو کیا صلح کی گنجائش ہے؟

طلاقنامے کی عبارت:

” ……………….مسماۃ آسیہ اللہ دتہ اس وقت حاملہ ہے، آج روز بقائمی حوش وحواس خمسہ بلا جبر واکراہ واثبات عقل برضامندی خود روبرو گواہان مسماۃ آسیہ اللہ دتہ کو طلاق دیتا ہوں ………الخ

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں  طلاقیں واقع ہو چکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو چکی ہے لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ  صلح کی گنجائش باقی ہے۔

توجیہ: اڑھائی سال قبل لڑائی  کے دوران  شوہر کے یہ الفاظ  کہ"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” د
و مرتبہ بولنے سے دو رجعی  طلاقیں واقع ہو گئی تھیں  اس کے بعد چونکہ  شوہر نے  عدت کے اندر رجوع  کرلیا  تھا اس لیے رجوع  ہوگیا اور نکاح باقی رہا اس کے بعد شوہر کے لیے ایک طلاق کا اختیار رہ گیا تھا کیونکہ طلاق سے رجوع کرلینے سے طلاق کا اثر تو  ختم ہو جاتا ہے لیکن  وہ طلاق بالکلیہ ختم نہیں ہوتی بلکہ  شمار میں رہتی ہے جب شوہر نے طلاق کا نوٹس اول بھیجا تو اس طلاقنامے کی  اس عبارت سے کہ "آسیہ اللّٰہ دتہ کو طلاق اول دیتا ہوں”تیسری طلاق بھی واقع ہو گئی جس سے نکاح ختم ہو گیا اور صلح یا رجوع کی گنجائش بھی ختم ہو گئی۔

تنویر الابصار(4/448)میں ہے:

صريحه ما لم يستعمل إلا فيه كطلقتك وأنت طالق ومطلقة ويقع بها واحدة رجعية وإن نوى خلافها أو لم ينو شيئا

وقال الشامي تحته:(قوله أو لم ينو شيئا)لما مر أن ‌الصريح ‌لا ‌يحتاج ‌إلى ‌النية

درمختار مع رد المحتار(4/501)میں ہے:

‌كرر ‌لفظ ‌الطلاق وقع الكل، وإن نوى التأكيد دين

(قوله ‌كرر ‌لفظ ‌الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق………. (قوله وإن نوى التأكيد دين) أي ووقع الكل قضاء

عالمگیری (1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

بدائع الصنائع(3/283)میں ہے:

أما الطلاق الرجعى فالحكم الأصلى له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك وحل الوطء فليس بحكم اصلى له لازم حتى لا يثبت للحال وانما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فان طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت

شامی(3/246) میں ہے:

وان كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو

بدائع الصنائع  (3/173) میں ہے:

وإن كتب كتابة مرسومة على طريق الخطاب والرسالة مثل أن يكتب أما بعد يا فلانة فأنت طالق أو إذا وصل كتابي إليك فأنت طالق يقع به الطلاق. ولو قال ما أردت به الطلاق أصلا لا يصدق إلا أن يقول نويت طلاقا من وثاق فيصدق فيما بينه وبين الله عز وجل لأن الكتابة المرسومة جارية مجرى الخطاب

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved