• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کا اپنی بیوی کی طلاق کو اپنی ماں کے گھر جانے پر معلق کرنا

استفتاء

مفتی صاحب میں نے اپنی بیو ی کو پشتو زبان میں ایک مرتبہ یہ الفاظ کہے  "ہلتہ بہ نہ زی او کچرے بیا لاڑی نو طلاق ای راباندی "(ترجمہ:تم نے وہاں (میری ماں کے گھر) نہیں جانا اور اگر پھر تم گئی  تو تم مجھ پر مطلقہ ہو) میری ماں کاگھر چونکہ  میرے گھر کے سامنے ہےاورمیری بیوی میرے ماں کے گھر جاتی تھی اور وہاں فضول باتیں کیا کرتی تھی تو یہ  فضول باتیں کرنے کی وجہ سے میں نے اس کو منع کیا لیکن میرے منع کرنے کے باوجود بھی کبھی کبھار چلی جاتی تھی  تو پھر میں نے اس کو اس طریقے سے منع کیا ۔

میرا سوال یہ ہے کہ پہلے میری  ماں کے گھر پر میری دو بھابھیاں بھی ساتھ رہتی تھیں ابھی ان میں سے ایک بھابھی نے اپنا گھر بنالیا ہے اور  وہ چلی گئی ہے ابھی میری ماں کے ساتھ ایک بھابھی رہتی ہےلیکن کبھی کبھار میری بھابھی  اپنی  ماں کے گھر چلی جاتی ہے تو میری ماں کو خدمت کی ضرورت ہوتی ہے  اور میری ماں بیمار بھی ہے  تو ابھی اس مسئلے کا کوئی حل بتائیے  میں بہت پریشان ہوں ۔

بیوی کا بیان:

” سارا واقعہ ایسے ہی ہے اور میرے شوہر نے ایک ہی دفعہ یہ الفاظ کہے تھے اور اس سے پہلے اور بعد میں کوئی طلاق نہیں دی”

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر بیوی آپ کی والدہ  کے گھر چلی گئی تو اسے ایک رجعی  طلاق  واقع ہوجائے گی جس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے اندر رجوع کرنے سے رجوع ہوجائے گا اور نکاح قائم رہے گا اور اگر عدت کے اندر رجوع نہ کیا تو عدت کے بعد دوبارہ اکٹھے رہنے کےلیےباہمی رضامندی سے نیا نکاح کرنا ہوگا جس میں گواہ بھی ہوں گے اور نیا مہر بھی مقرر ہوگا،نیز ایک دفعہ آپ کی ماں کے گھر  جانے کے بعد دوبارہ جانے سے کوئی طلاق واقع  نہ ہوگی۔

نوٹ:اگرشوہر نے واقعتا ایک  ہی دفعہ یہ الفاظ کہے تھے تو  رجوع کرنے کی صورت میں آئندہ شوہر کو دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

توجیہ:طلاق کو جب کسی شرط پر معلق کیا جائے تو شرط کے پائے جانے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے مذکورہ صورت میں شوہر نے طلاق کو بیوی کے ماں کے گھر جانے پر معلق کیا ہے لہذا اگر بیوی ماں کے گھر چلی جائے  تو شرط پائے جانے کی وجہ سے طلاق واقع ہوجائے گی  اور شوہر نے چونکہ طلاق کے صریح الفاظ استعمال کیے تھے  اس لیے ایک  رجعی طلاق واقع ہوگی اور ایک دفعہ طلاق واقع ہونے کے بعد قسم پوری ہوجانے کی وجہ سے دوبارہ ماں کے گھر جانے سے  مزید کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔

عالمگیری(1/420)میں ہے:

‌وإذا ‌أضافه ‌إلى ‌الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.

بدائع الصنائع(3/180)میں ہے:

‌أما ‌الطلاق ‌الرجعي ‌فالحكم ‌الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت.

ہدایہ(2/409)میں ہے:

‌وإذا ‌كان ‌الطلاق ‌بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها ” لأن حل المحلية باق.

در مختار(5/42)میں ہے:

‌(وينكح) ‌مبانته ‌بما ‌دون ‌الثلاث في العدة وبعدها بالاجماع.

عالمگیری (1/ 415)میں ہے:

ألفاظ الشرط إن وإذا وإذما وكل وكلما ومتى ومتى ما ‌ففي ‌هذه ‌الألفاظ ‌إذا ‌وجد الشرط انحلت اليمين وانتهت لأنها لاتقتضي العموم والتكرار فبوجود الفعل مرة تم الشرط وانحلت اليمين فلا يتحقق الحنث بعده إلا في كلما لأنها توجب عموم الأفعال.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved