• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کیا طلاق ثلاثہ کے بعد میاں بیوی حلالہ شرعیہ کے بغیر اکٹھے رہ سکتے ہیں؟

استفتاء

گزارش ہے کہ چند سال قبل میری شادی ہوئی جس میں سے اللہ نے مجھے دو بچے دیے جن کے نام محمد ابراہیم زوہیب اور قرات زوہیب ہیں۔ شادی کے کچھ دنوں بعد مجھے معلوم ہوا کہ میری بیوی کرن احسان خاندانی طور پر خالہ اور پھوپھو دونوں کی طرف سے ذہنی بیماری میں مبتلا ہے جس میں بچوں کا خیال نہ رکھنا تو دور کی بات تھی وہ از خود اپنا دھیان رکھنے سے بھی  قاصر تھی  یہاں تک کہ بیٹھے بیٹھے وہ کپڑوں میں ہی واش روم کر دیتی تھی اور اسے پتہ بھی نہیں چلتا تھا۔ اور بھی بہت ساری چیزیں شامل ہیں خیر میں نے ان کے والدین کو اکثر اس کی تیمارداری کے لیےکہا  جس پر وہ الٹا مجھ سے لڑتے جھگڑتے کہ تم جانو تمہارے بچے جانیں  اور تمہاری بیوی جانے۔ ہم نے اس کا کوئی ٹھیکا نہیں اٹھایا ہوا۔ جس پر میں بہت پریشان رہنے لگا اور انہی وجوہات کی بنیاد پر اکثر گھر میں جھگڑا ہوتا رہتا تھا اور بالآخر تنگ آکر  میں نے اپنی بیوی کرن احسان کو طلاق دے دی ، طلا ق کے الفاظ یہ تھے کہ” میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” میں نے قانونی طریقے سے بھی طلاق دی اور یونین کونسل سے سرٹیفکیٹ حاصل کیا جو کہ میرے پاس موجود ہے۔ میری رہنمائی فرمائیں کہ بغیر حلالہ کے میں رجوع کرسکتا ہوں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں ہوچکی ہیں اور میاں بیوی ایک دوسرے پر حرام ہوچکے ہیں لہٰذا حلالہ شرعیہ کے بعد دوبارہ نکاح کیے بغیر میاں بیوی  اکھٹے نہیں رہ سکتے  ۔

توجیہ : شوہر کے الفاظ  کہ”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”  صریح ہیں اور صریح الفاظ جتنی مرتبہ بولے جاتے ہیں اتنی ہی مرتبہ طلاق ہوتی ہے چونکہ  مذکورہ صورت میں شوہر نے تین مرتبہ صریح الفاظ کہے ہیں لہذا تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور تین طلاقوں کے بعد بیوی شوہر پر حرام ہو چکی ہے اور بغیر حلالہ شرعیہ کے دونوں اکھٹے نہیں رہ سکتے۔

ہدایہ (2/ 132)میں ہے:

«وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة أو ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها ” والأصل فيه«قوله تعالى: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] فالمراد الطلقة الثالثة»

الدر المختار (4/509) میں ہے:

«فروع: ‌كرر ‌لفظ ‌الطلاق وقع الكل، وإن نوى التأكيد دين

«قوله ‌كرر ‌لفظ ‌الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق، وإذا قال: أنت طالق ثم قيل له ما قلت؟ فقال: قد طلقتها أو قلت هي طالق فهي طالق واحدة لأنه جواب، كذا في كافي الحاكم (قوله وإن نوى التأكيد دين) أي ووقع الكل قضاء، وكذا إذا طلق أشباه: أي بأن لم ينو استئنافا ولا تأكيدا لأن الأصل عدم التأكيد»

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved