• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کا اپنی بیوی کو تین طلاقیں دینے کا حکم

استفتاء

بیوی کا بیان:

میں بیان حلفی کے ساتھ  بتاتی ہوں کہ 2023-7-14 کو صبح کے ٹائم 9 بجے میری اور میرے خاوند کی آپس میں لڑائی ہوئی، لڑائی ہمارے بیٹے کی وجہ سے ہوئی،  بیٹے نے تبلیغ والوں کے ساتھ جانا تھا اور اس نے اپنے ابو سے پیسے مانگے، ابو نےبولا کہ اپنی امی سے مانگو میرے پاس نہیں ہیں تو میں نے بولا کہ میرے پاس صرف ایک ہزار روپے  ہیں   جو کہ میرا اپنا خرچہ ہے میں نہیں دوں گی تو اس بات پر میرے خاوند غصہ کرنے لگے اور بولے  کہ تم اپنی تنخواہ ہمیں نہیں دیتی ہو اپنے اوپر خرچ کرتی ہو اس لیے میں تم سے تھک گیا ہوں تم اپنی امی کے گھر چلی جاؤ میں تمہارے ساتھ کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہتا۔ اس کے بعد وہ باہر چلا گیا اور اپنے کزن اور ایک ہمسائے کو ساتھ لے کر گھر آیا اور بولا کہ میں اپنی بیوی سے تھک گیا ہوں نہ تو مجھے کپڑے دھو کر دیتی ہے، نہ ہی گھر کی صفائی کرتی ہے ۔چونکہ میری نوکری ہے اس لیے میں بار بار ڈیوٹی پر جاتی ہوں اس بات پر بھی میرے خاوند مجھ سے غصہ ہوتے تھے کہ روزانہ میں تمہیں لے کر نہیں جا سکتا لہذا میں تمہاری جان چھوڑ رہا ہوں تم مجھ سے آزاد ہو۔ میں نے امی کے گھر جانا تھا مجھے کام تھا اس لیے میں نے بولا کہ مجھے امی کے گھر چھوڑ آؤ۔ پھر میں ان کے ساتھ اپنی امی کے گھر چلی گئی،  وہاں پر انہوں نے مجھے میری بھابھی، بہن اور امی کے سامنے بولا کہ” میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” یہ الفاظ انہوں نے تین بار دہرائے اور اس کے بعد وہ اپنے گھر آگئے اور میں اپنی امی کے گھر رہی۔ کیا ہماری طلاق ہوچکی ہے؟ یا ابھی صلح کی گنجائش ہے؟

شوہر کا بیان:

صبح 9 بجے اپنے گھر پر ہمارا جھگڑا شروع ہوا کہ تم اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاؤ،مجھے تمہار ی کوئی ضرورت نہیں، یہ کہہ کر ہم دونوں شہر چلے گئے، پھر وہاں جاکر میں نے تین بار طلاق کا کہا اور واپس چلا آیا، پھر گھر آکرمیرے کزن نے مجھ سے فارم فِل کروائے جو میں وہاں کہہ کر آیا تھا ان کو بتادیا  اور لکھ دیا۔

طلاقنامے کی عبارت:

……………………من مقر نے گھریلو ناچاقی کی  بناء پر اپنی  بیوی ***کو لفظ "ط” سے طلاق، طلاق، طلاق دیکر یعنی طلاق ثلاثہ دیکر اپنے اوپر حرام کرلیا  ہے  ………

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں  طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور بیوی  شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور  نہ ہی صلح کی گنجائش باقی ہے۔

توجیہ ***یہ الفاظ طلاق کے لیے صریح ہیں اور صریح الفاظ جتنی دفعہ بولے جائیں اتنی طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں ۔لہٰذا  خاوند کے تین دفعہ  مذکورہ الفاظ بولنے کی وجہ سے تینوں  طلاقیں واقع ہو گئی ہیں۔

تنویر الابصار (4/443) میں ہے:

صريحه ما لم يستعمل إلا فيه كطلقتك وأنت طالق ومطلقة ويقع بها واحدة رجعية وإن نوى خلافها أو لم ينو شيئا.

در مختار مع حاشیہ ابن عابدین (4/509) میں ہے:

[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكل

قوله: (كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}سواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved