• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میسج پر طلاق کی ایک صورت

استفتاء

ہمارا ایک پلاٹ تھا جس سے ہمارا جھگڑا شروع ہوا ،میں نے سونا  بیچ کر پلاٹ خریدا اور پھر شوہر کے نام کروایا تھا، میرے شوہر نے مجھے بتائے بغیر وہ بیچ دیا اور پیسے بھی نہیں دے رہا تاکہ بچوں کے کام آ جائیں تو میں ناراض ہو کر میکے آگئی کچھ عرصہ ان کے عزیز آتے رہے کہ گھر چلو، میں نے وہی مطالبہ رکھا کہ پلاٹ کا معاملہ حل کرو وہ یہ معاملہ حل نہیں کر رہے تھے۔ ایک دن میں نے شوہر کو کافی مرتبہ کال  کی لیکن اس نے اٹینڈ نہیں کی  بلکہ کاٹ دیتا تھا  تو میں نے غصہ میں ایک سخت  میسج کر دیا تو جواب میں شوہر نے یہ   تحریری میسج کیا "میں آپ کو طلاق، طلاق، طلاق دیتا ہوں  بس ہو گیا سکون اب سب کچھ ختم اور کچھ چاہیے جس کا آپ کو سات سال سے انتظار تھا وہ پوری ہو گئی آپ کی خواہش اب آپ کو کوئی تنگ کرنے والا نہیں ہوگا ساری زندگی رہیں اب اپنی لائف میں جو پسند ہو اس سے کرنا شادی پسند والے سے”  اس میسج  کی تصویر بھی ارسال کردی ہے اب وہ صلح کرنا چاہتا ہے کیا صلح کی گنجائش باقی ہے؟

شوہر کا  بیان:

ہمارے میاں بیوی کے معاملات خراب چل رہے تھے، میں نے مختلف طریقوں سے منانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مان رہی تھی، میں نے نشہ بھی شروع کر دیا تھا ایک دفعہ میں نے نشہ کیا اور اپنے ماموں کے گھر چلا گیا جو تقریبا 40 منٹ کے فاصلے پر ہے گاڑی میں خود چلا کر گیا تھا، وہاں رات کو نیند نہ آئی ساری رات جاگتا رہا بیوی کی کال بھی آئی لیکن میں نے اٹینڈ نہیں کی، صبح اس کا میسج دیکھا تو مجھے بہت غصہ آیا تو میں اسے ایک طلاق دینا چاہتا تھا لیکن پتہ نہیں کیسے تین طلاقیں لکھی گئیں جب میں نے میسج ارسال کر دیا تو دیکھا یہ تو تین طلاقیں لکھی گئیں  ہیں۔ مفتی صاحب! میرا ارادہ صرف اور صرف ایک طلاق دینے  کا تھا، تین طلاق کا تو بالکل بھی ارادہ  نہ تھا۔ برائے مہربانی کوئی گنجائش ہو تو بتائیں ہمارا گھر بچ جائے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً شوہر کی ایک طلاق  کی نیت تھی تو شوہر کے حق میں صرف ایک رجعی  طلاق واقع ہوئی ہے تاہم بیوی کے حق میں  تینوں  طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی  وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے  لہٰذا  بیوی کے لیے اب  نہ صلح  کرنا جائز ہے اور نہ رجو ع کی گنجائش ہے۔

تو جیہ: ہماری تحقیق کے مطابق میسج کی تحریر کتابت مستبینہ غیر مرسومہ ہے اور طلاق کی کتابت مستبینہ غیر مرسومہ چاہے الفاظ کے لحاظ سے صریح ہو مگر غیر مرسومہ ہونے کے وجہ سے نیت کے حق میں ملحق بالکنایہ ہوتی ہے جس سے شوہر   کے حق میں تو نیت کے بغیر طلاق نہیں ہوتی اور چونکہ شوہر کی صرف ایک طلاق کی نیت تھی اس لیے شوہر کے حق میں صرف ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے لیکن بیوی کے حق میں نیت کے بغیر بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے بشرطیکہ طلاق لکھتے وقت شوہر غصے میں ہو  یا اس وقت طلاق کا تذکرہ ہو رہا ہو اور چونکہ مذکورہ صورت میں طلاق لکھتے وقت  شوہر غصے میں تھا اس لیے عورت کے حق میں غصے کی وجہ سے  نیت کے بغیر بھی تینوں  طلاقیں  ہوچکی ہیں۔

ہندیہ(1/ 378)میں ہے:

«الكتابة ‌على ‌نوعين مرسومة وغير مرسومة ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب وغير موسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا وهو على وجهين مستبينة وغير مستبينة فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكن فهمه وقراءته ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا فلا وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة»

فتاویٰ النوازل لابی اللیث السمرقندی(ص215) میں ہے:

ثم الكتاب إذا كان مستبيناً غير مرسوم كالكتابة على الجدار وأوراق الأشجار وهو ليس بحجة من قدر على التكلم فلا يقع إلا بالنية والدلالة.

البحر الرائق (8/544) میں ہے:

ومستبين غير مرسوم كالكتابة على الجدران وأوراق الأشجار أو على الكاغد لا على وجه الرسم فإن هذا يكون لغوا؛ لأنه لا عرف في إظهار الأمر بهذا الطريق فلا يكون حجة إلا بانضمام شيء آخر إليه كالبينة والإشهاد عليه والإملاء على الغير حتى يكتبه؛ لأن الكتابة قد تكون للتجربة وقد تكون للتحقيق وبهذه الإشارة تتبين الجهة

در مختار مع رد المحتار (4/521) میں ہے:

والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط ويقع في حالة الغضب والمذاكرة بلا نية.

درمختارمع ردالمحتار(4/516)میں ہے:

فالكنايات (‌لا ‌تطلق ‌بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهى حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب

تنویر الابصار (4/443) میں ہے:

صريحه ما لم يستعمل إلا فيه كطلقتك وأنت طالق ومطلقة ويقع بها واحدة رجعية وإن نوى خلافها أو لم ينو شيئا.

در مختار مع حاشیہ ابن عابدین (4/509) میں ہے:

[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكل

قوله: (كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}سواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة

فقہ اسلامی مؤلفہ حضرت  ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحبؒ  میں ہے:

طلاق لکھنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ صاف صاف لفظوں میں طلاق دے کر پھر روک رکھنے کا اختیار اس وقت تک ہے جب تین طلاقیں نہ دے فقط ایک یا دو طلاقیں دے جب تین طلاق دے دیں تو اب کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved