• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تین طلاقوں کو اپنی ماں کے گھر جانے پر معلق کرنا

استفتاء

میرا سوال یہ ہے کہ میں نے رمضان میں   اپنی بیوی کو میری ماں کے  گھر جانے سے منع کیا تھا ،تقریبا سال  پورا ہونے والا  ہے،وہ وہاں جاکر فضول فضول باتیں کرتی تھی ،اس گھر میں میری ماں اور ایک بھائی بیوی بچوں سمیت رہتا ہے ،کبھی ماں کے ساتھ تو  کبھی بھابی کیساتھ فضول باتیں  کرتی تھی تو میں نے  وہاں جانے سے بہت زیادہ منع کیا تھا کتنی کتنی مرتبہ منع کیا کہ مت جاؤ ،مت جاؤ  لیکن پھر بھی وہ کبھی کسی بہانے سے کام کیلئے جاتی تھی، پھر  میں نے ایک دن فون کیا وہ وہاں موجود تھی میں نے بول دیا میرے  ہزار مرتبہ بولنے کے باوجود بھی تم یہاں آتی  ہو ، پھر یہاں آگئی ہو تو میں نے اسکو بول دیا صبر کرو ،ابھی میں آپکے ساتھ ایسا کام کرونگا کہ انشاء اللہ آپ بھی نہیں آئیں  گی جب وہ اپنے یعنی میرے  گھرآ گئی  تو میں غصے میں تھا اور فون کیا اور خوب سنایا  اور کہا اگر اسکے بعد آپ میری ماں کے گھر گئی تو آپ ہم پر طلاق  ہوں گی اور بار بار یہی جملہ  کہا کہ ابھی آپ منع ہو جائیں گی اس کے بغیر آپ   منع نہیں ہوں گی میں نے غصے میں فون کیا تعداد مجھے یاد نہیں  کہ کتنی مرتبہ بول دیا ہے لیکن زیادہ مرتبہ بول دیا ہے اور بیوی بھی بول رہی تھی کہ اسی ٹائم ایک فون پر آپ نے بہت مرتبہ کتنی کتنی مرتبہ بول دیا ہے۔  فون پر میں  نے یہ جملہ کہا:

"ماورتہ وئیل  کچرے دے کور تہ راغلے پہ مابہ طلاقہ یی ورتہ می وئیل وادے ریدل  درتہ وایم کچرے بیا دلتہ راغلے طلاقہ بہ یی راباندے ورتہ می وئیل اوس دے خوخہ خپلہ دہ کہ ھلتہ زی ھم او کہ نہ زی ھم

ترجمہ:میں نے اس کو کہا کہ اگر اس گھر آئی تو مجھ پر مطلقہ ہوگی میں نے اس کو کہا، سن لیا نا، میں تمہیں کہہ ر ہا ہوں کہ اگر پھر یہاں آئی مطلقہ ہوگی مجھ پر، میں نے  اس کو کہا اب تمہاری مرضی ہے تم وہاں جاؤ یا نہ جاؤ۔

اسی ٹائم سےابھی تک  وہ اس گھر میں نہیں گئی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس گھر میں میری ماں اور بھائی بیوی بچوں سمیت موجود ہے  وہاں جانےکی ضرورت ہے ابھی ماں کمزور اور بیمار  ہےاور بھائی کی بیوی ہے صرف میری ذمہ داری تو نہیں  ؟ باقی بچے اور بھی ہیں اس کے ۔ لیکن میری ماں اپنی ضد پر ہے کہ میں اپنے  گھر سے کہیں بھی نہیں جانے والی ہوں۔ یہ میرے شوہر کا گھر  ہےمیری ڈولی یہاں آئی ہے اور یہاں سےجنازہ  بھی جائے گا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکور ہ صورت میں اگر بیوی شوہر کی ماں کے گھر چلی  گئی تو تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی اور بیوی شوہر پر حرام ہو جائے گی جس کے بعد  رجوع اور صلح کی گنجائش نہیں ہے ،البتہ تین طلاقوں سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ شوہر بیوی کو ایک بائنہ  طلاق دیدے  یعنی یوں کہہ دے کہ "میں نے تجھے ایک بائنہ طلاق دی” اور جب عدت پوری ہو جائے( یعنی تین ماہواریاں گزر جائیں ) تو  بیوی شوہر کی ماں کے  گھر چلی جائے، ایسا کرنے سے شرط پوری ہو جائے گی اور کوئی طلاق بھی واقع نہ ہوگی اور آئندہ کے لیے شرط بھی ختم ہوجائے گی اس کے بعد   گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کرلے ۔

نوٹ :آئندہ  کے لیے شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا ۔

توجیہ:شوہر کے ان الفاظ سے  ما   ورتہ وئیل  کچری دے کور تہ راغلے نو پہ  ما بہ طلاقہ یی  ،ورتہ  مہ  وئیل  وادے  ریدل  ، وایم  کچرے بیاد دلتہ راغے  طلاقہ  بہ راباندی  ( شوہر نے مذکورہ  الفاظ  بار با ر کہے  تھے)  "( میں نے اس کو کہا کہ اگر اس گھر (شوہر کی ماں کے گھر ) آئی تو مجھ پر مطلقہ ہوگی ، اگر پھر یہاں(  شوہر  کی ماں کے گھر )آئی تو مجھ پر مطلقہ ہوگی )تین طلاقیں بیوی کے شوہر کی ما ں کے گھرجا  نے پر معلق ہوگئی  ہیں لہذا  اگر مذکورہ  شرط   (بیوی کا    شوہر  کی ماں  کے گھر  چلے جانا ) پائی گئی  تو تینوں طلاقیں  واقع ہوجائیں گی  اور    بیوی شوہر پر حرام ہوجائے گی، تاہم تین طلاقوں سے بچنے کی وہ صورت ہوسکتی ہے جو جواب میں بیان کردی گئی ہے ۔

بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع (3/ 139) میں ہے:

«إذا قال لامرأته: إن دخلت هذه الدار فأنت طالق ‌ثم ‌قال ‌في ‌اليوم ‌الثاني: إن دخلت هذه الدار فأنت طالق ثم قال: في اليوم الثالث: إن دخلت هذه الدار فأنت طالق ثم دخلت الدار أنه يقع الثلاث، وإن كان الإيقاع متفرقا؛ لأن هناك ما أوقع الثلاث متفرقا في زمان ما بعد الشرط؛ لأن ذلك الكلام ثلاثة أيمان، كل واحدة منها جعلت علما على الانطلاق في زمان واحد بعد الشرط فكان زمان ما بعد الشرط – وهو دخول الدار – وقت الحنث في الأيمان كلها فيقع جملة ضرورة حتى لو قال لها: إن دخلت هذه الدار فأنت طالق ‌ثم ‌قال ‌في ‌اليوم ‌الثاني: إن دخلت هذه الدار الأخرى فأنت طالق ثم قال في اليوم الثالث إن دخلت هذه الدار فأنت طالق لا يقع بكل دخلة إلا طلاق واحد؛ لأن الموجود ثلاثة أيمان، لكل واحد شرط على حدة

عالمگیری (1/420) میں  ہے:

وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.

الدرالمختار (3/355) میں ہے:

(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن ‌إن ‌وجد ‌في ‌الملك طلقت وعتق، وإلا لا، فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved