• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بلوچستان میں طلاق کا تاکید کے لیے استعمال ہونے کا عرف

استفتاء

ایک شخص نے شادی کی، کچھ ہی ماہ بعد وہی شخص رمضان المبارک میں صوبہ بلوچستان تراویح سنانے چلا گیا، وہاں جا کر تراویح سنائی، عید پر جب اپنے گھر آنے لگا تو مسجد والوں نے کہا کہ عید کے بعد ہماری مسجد میں واپس آ جانا، تو اس نے کہا کہ ٹھیک ہے میں آ جاؤں گا، تو وہاں پر بلوچستان میں بات بات پر بطور محاورہ ایک دوسرے کو پابند کرنے کے لیے قسم وغیرہ دے دیتے ہیں، زیادہ تر وہ لفظ استعمال کرتے ہیں کہ "اگر یہ کام نہ کیا یا نہ آیا تو رن یعنی بیوی طلاق ہے”۔

کچھ اس طرح سے اس شخص کو بھی مسجد میں مصلا رسول پر بیٹھا کر کہا کہ "تم واپس نہ آئے تو رن یعنی بیوی طلاق ہے”، تو مذکورہ شخص نے کہا کہ ٹھیک ہے رن طلاق بس۔ بعد میں اپنے گاؤں چلا آیا اور پھرو اپس نہ گیا، اسی طرح کچھ ماہ کے بعد یا کچھ دنوں کے بعد کسی اور جگہ پر بھی یہی اوپر سے ملتی جلتی شرط کی طرح کہیں کسی اور مجلس میں یہی بات کہی کہ "یہ کام نہ کیا یا کچھ بھی تو رن طلاق”، اور  اسی طرح مذکورہ شخص نے اپنی بیوی کو کہا کہ "فلاں جگہ نہ جانا یا یہ کام نہ کرنا اگر کیا تو پھر تمہیں میں طلاق دے دوں گا یا پھر تم مجھ سے فارغ ہو گی”۔ حالانکہ یہ بات صرف اس نے اپنی بیوی کو آخری  نمبر 3 والے لفظوں کے ساتھ کہی باقی نمبر 1-2 والی باتیں کسی اور جگہ پر کہیں، تو جگہ وغیرہ بھی اور ہیں تو جب اس شخص نے یہ تمام واقعہ اپنی ماں کو بتایا تو اس کی والدہ نے شور ڈال دیا کہ تم پر تمہاری بیوی حرام ہو گئی ہے، اب فوراً اس (ماں) نے  اس شخص کی بیوی کو کہا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ، اب تم میرے بیٹے پرحرام ہو، تو اس بچی نے کہا کہ  تو میرے خاوند نے کچھ نہیں کیا، آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں، بات بہت دور دور تک پھیل گئی۔

واضح رہے کہ دو سال تک وہ لڑکی ان کے پاس رہی اور ایک بچہ بھی ہو گیا، تو کیا اس طرح طلاق ہو جاتی ہے؟ جبکہ اس شخص نے اپنی بیوی کو طلاق کے لفظ کہے ہی نہیں اور اب اس لڑکی کی والدہ اس کی شادی کسی اور جگہ کر رہے، تو کیا یہ شادی اسلام میں جائز ہے؟ جبکہ طلاق نہ تحریری طور دی گئی ہے اور نہ ہی زبانی طور پر تو کیا طلاق واقع ہو گئی۔ اپنے علاقہ کے عالم دین اور مفتی صاحب کو جا کر اس شخص نے اپنی زبانی جو لفظ استعمال کیے وہ بتائے تو مفتی صاحب نے کہا کہ بقول آپ کے تو اس طرح طلاق ہو جاتی ہے، باقی کسی اور بھی مفتی صاحبان سے نہ ہی فتویٰ لیا گیا اور نہ کسی اور عالم سے پوچھا گیا۔ واضح رہے کہ اس شخص کے والد صاحب سعودی عرب میں ہوتے ہیں، فون پر ان کو بتایا گیا تو والد صاحب نے بھی کہا کہ طلاق واقع ہو گئی ہے، کیونکہ اب والد صاحب کو جس طرح بتایا گیا تو انہوں نے کہا کہ طلاق ہو گئی، اب یہ نہیں پتہ کہ کیا بتایا گیا تھا۔ برائے کرم بندہ کی حوصلہ افزائی فرمائیں کیونکہ کسی کا گھر تباہی کی طرف جا رہا ہے، اسلام اور شرعی لحاظ سے کہیں کوئی گنجائش ہے تو برائے مہربانی مسئلہ حل کرا دیں۔

نوٹ: اس طلاق کا کوئی چشم دید گواہ نہ ہے نہ مرد اور نہ عورت، صرف ایک عورت وہ بھی اس شخص کی والدہ جس کو اس شخص نے یہی مندرجہ ذیل شرائط وغیرہ بنائیں، اس عورت کے شور وغیرہ کرنے پر اور دلہن کو زبردستی اس کے میکے بھیجنے پر، پھر ہر جگہ یہی بات پھیل گئی کہ فلاں عورت کو طلاق ہو گئی ہے، لیکن ابھی تک اس شخص نے اپنی بیوی کو زبانی بطور گواہان طلاق نہ دی ہے۔

وضاحت: دوسری مرتبہ جو واقعہ پیش آیا وہ یہ تھا کہ مذکورہ شخص کا کچھ لوگوں سے جھگڑا ہوا، اس نے کہا "اگر شام تک میں نے

اس بات کی تمہارے والد کو شکایت نہ لگائی تو رن طلاق ہے”۔ اور اس نے شکایت نہیں لگائی۔

تیسرا واقعہ یہ ہوا کہ بیوی سے اس بات پر جھگڑا ہوا کہ خاوند گھر کا سامان بیچ کر کھا جاتا ہے تو بیوی نے کہا اگر تمہارا یہی حال رہنا ہے تو میں اپنے ماں کے گھر چلی جاتی ہوں، تو خاوند نے غصے میں کہا "اگر تو اپنی ماں کے گھر گئی تو میری طرف سے فارغ ہے” یا کہا کہ "فارغ ہو گی”، حال یہ ہے کہ وہ عورت اپنی ماں کے گھر نہ گئی، اس کے گھر والے اسے آ کر زبردستی لے گئے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

احسن الفتاویٰ 5/ 189 پر مفتی رشید احمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"جملہ "طلاق رن” سندھ کے عرف میں طلاق کے لیے متعین نہیں، اس کو گالی کے طور پر بھی بکثرت استعمال کرتے ہیں، اس موقع پر یہ بمعنیٰ قابل طلاق یا مطلقہ جیسی ہو گا، لہذا اگر شوہر نے گالی کے طور پر یہ الفاظ کہے ہیں تو طلاق نہ ہو گی۔”

بلوچستان کے عرف میں تاکید مقصود ہے، سائل کا کہنا ہے کہ "بلوچستان میں بات بات پر بطور محاورہ ایک دوسرے کو پابند کرنے کے لیے قسم وغیرہ دیتے ہیں”۔ معلوم ہوا کہ طلاق دینا یا طلاق کہلوانا مقصود نہیں صرف تاکید مقصود ہے لہذا طلاق نہ ہو گی۔

البتہ تیسرے واقعہ کے الفاظ سے ایک طلاق بائنہ ہو گئی، اس لیے نکاح کی تجدید کرنا ہو گی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved