• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو تعلیق طلاق کا علم ہونا

استفتاء

شوہر کا بیان (3 جنوری 2014ء)

میں (***) پورے وثوق کے ساتھ درج ذیل بیان قلمبند کر رہا ہوں، میری شادی کو چودہ سال ہو چکے ہیں۔ جو کہ***کے ساتھ مورخہ جنوری 2000ء کو ہوئی، ان کے بطن سے میرے 5 بچے (3 بیٹیاں اور دو بیٹے) ہیں، جن کی عمریں بالترتیب تقریباً  (بیٹی: 12 سال، بیٹی: 9 سال، بیٹا: 7 سال، بیٹا: 5 سال، بیٹی 3 سال) ہمارے حالات اس دوران خوشگوار رہے مگر وقتاً فوقتاً گھریلو معاملات میں کشیدگی بھی رہتی تھی، شادی کے پہلے ہفتے سے ہی ہمارے گھر میں لڑائی شروع ہو گئی تھی اور اس کی وجہ میرے سسرال والے تھے مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ مجھے بہنوئی ہونے کی حیثیت سے جو عزت دینی چاہیے وہ عزت نہیں دے رہے تھے اور میری امیدوں پر پورے نہیں اتر رہے تھے، یہی وجہ تھی کہ میں نے اپنی بیوی کو شادی کے بعد آنے والی پہلی عید جو کہ شادی کے دس دن بعد تھی اس ماں کے گھر جانے نہیں دیا اور اپنے بڑے سالے کی شادی میں بھی نہیں جانے دیا (جو کہ میری شادی کے ایک ماہ بعد ہوئی تھی اور برات کراچی جانا تھی)، اس دوران ایک بار ایسا ہوا کہ ایک میری ساس نے میری ماں کے بارے میں کچھ بُرا کہا میں نے اپنی بیوی کو کہا کہ تمہاری ماں کو میری ماں سے معافی مانگنا پڑے گی اور اس پر میری ساس نے اور میرے بڑے سالے آ کر میری ماں سے معافی مانگی، پھر کچھ دن بعد گھر میں پھر لڑائی جھگڑا ہوا اور میری بیوی اپنے بھائی کے ساتھ اپنی ماں کے گھر چلی گئی، میں نے چند دنوں بعد اپنے بھائی کو بھیجا کہ جا کر میری بیوی اور بچی کو لے آؤ (اس وقت میری صرف ایک ہی بیٹی تھی) میں نے اپنے بھائی کو یہ بھی کہا کہ وہ میری بیوی کو جا کے بتا دے "اگر وہ اس کے ساتھ واپس نہ آئی تو میری طرف سے ایک طلاق ہو گی”۔ یہ طلاق والی بات میرے بھائی نے میری بیوی کو نہیں بتائی بلکہ ان لوگوں سے مل کر واپس آ گیا، میری بیوی میرے بھائی کے ساتھ اس دن واپس نہیں آئی، پھر کچھ دن بعد میں اور میری والدہ جا کر ان کو لے آئے، اس طرح کچھ حالات اچھے ہو جاتے کبھی کشیدگی ہو جاتی اور دونوں خاندانوں کے بزرگوں کے سمجھانے پر رفع ہو جاتی تھی۔

ہمارے درمیان موجودہ جھگڑے کی بنیاد 8 ماہ پہلے اس وقت ہوئی جب میں نے اپنی بیوی کو موبائل فون خرید کر  دیا، تاکہ اس کا رشتہ داروں اور مجھ سے رابطہ بآسانی ہو سکے، اس دوران میری بیوی نے مجھے کہا کہ وہ اپنے پرانے کلاس فیلو محلے دار دوست (جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل تھیں) کے ساتھ بھی رابطہ کرنا چاہتی ہے، اس پر میں ان کے اعتماد پر اجازت دے دی مگر آن سے تقریباً دو اڑھائی ماہ پہلے مجھ پر انکشاف ہوا کہ ان رابطوں میں ایک شخص (جس کا نام آفتاب احمد تھا) کے ساتھ بہت زیادہ ٹیلی فون اور ایس ایم ایس پر بات چیت ہوتی تھی جو کہ پورا پورا دن وقفہ وقفہ سے ہوتی تھی، اگرچہ مجھے اس بات کا پورا یقین تھا کہ ان کا یہ رابطہ کسی بھی قسم کا غلط نہیں تھا (اور اس بات کا بعد میں میری بیوی  نے حلف جائے نماز پر بیٹھ کر قرآن پاک ہاتھ رکھ کر اٹھایا تھا کہ وہ صرف ایک مرتبہ میرے چھوٹے بھائی عثمان کی موجودگی میں ہمارے گھر آیا تھا اس کے علاوہ وہ شخص آفتاب کبھی بھی ہمارے گھر نہ آیا اور نہ ہی میری بیوی کا اس کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق تھا)۔ پھر بھی میں نے اپنی بیوی کو بہت سختی سے منع کر دیا جیسا کہ میرے ضمیر کے خلاف تھا، مزید برآں میں نے اپنی بیوی کو آئندہ کسی بھی دوست (مرد و عورت) سے کسی بھی قسم کا رابطہ کرنے سے منع کر دیا۔ اور لکھ کر بھی دکھایا، میری بیوی نے اس پر سختی سے عمل کیا اور سب رابطے ختم کر لیے، مگر ان کا میرے ساتھ رویہ بہت ہی زیادہ اکھڑا اکھڑا رہنے لگا اور ہمارا تعلق اتنا رہ گیا کہ کیا کھانا اور کیا پہننا ہے، میں نے اس دوران ان کو بہت باور کروایا کہ آپ یہ رویہ ٹھیک نہیں ہے اگر ہمارے اتنے ہی گیپ ہیں تو ہم ایک کمرہ میں کیوں رہتے ہیں اور میں نے اپنا کمرہ الگ کر لیا، مگر دس پندرہ دن کے بعد جب ان کا موڈ ٹھیک ہوتا تو رویہ ٹھیک کر لیتی مگر دو دن کے بعد پھر وہی، جس پر میں دوبارہ الگ کمرے میں سونا شروع کر دیتا، اس کے بعد وہ دس بارہ دن کے بعد پھر موڈ ٹھیک کر لیتی، مگر پھر بعد میں ویسا ہی رویہ اختیار  کر لیتی جس پر میں نے انہیں کہا  کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ ہماری زندگی اس طرح کمپرمائزنگ کیوں گذر رہی ہے؟ کیا ہم پیار محبت سے نہیں رہ سکتے؟

جمعہ بروز تین جنوری 2014ء تک دس بارہ دن سے ان کا موڈ چھ دن کے لیے ٹھیک ہوا تھا مگر بعد میں رویہ ٹھیک نہ ہو سکا، اور میں پچھلے دس دن سے علیحدہ کمرہ میں رہ رہا تھا، پچھلی بدھ یکم جنوری 2014ء کو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا رویہ بہت ہی زیادہ بدلا

ہوا ہے کیا آپ کے بہن بھائی یا کسی عزیز کا فون آیا تھا کیوں آپ کا رویہ ایسا ہو گیا ہے؟ (یہ سوال پوچھنے کی وجہ یہ تھی کہ پچھلے پیر مورخہ 30 دسمبر 2013ء کو میں نے اپنی بیوی اور اپنے گھر یلو حالات کے بارے میں اپنے ہم زلف ظفر کو تفصیلاً بتا دیا تھا اور امید کر رہا تھا کہ وہ ہمارے معاملات کو جلد سلجھانے کی کوشش کریں گے)، میری بیوی نے جواب دیا کہ کسی کا فون نہیں آیا، اور یہ مجھے کہتی تھیں کہ میرا رویہ آپ سے ٹھیک ہے مگر میں نے انہیں کہا کہ میں آپ کا خاوند ہوں اور مجھے آپ کے رویے کا پتہ چل جاتا ہے، اگر آپ زبان سے اقرارنہ بھی کریں تو بھی آپ کی بیزاری آپ کے چہرے سے میں محسوس کر سکتا ہوں، کہ آپ میری طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتیں۔

میں اپنی بیوی کو ہمیشہ یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا رہتا تھا کہ وہ مجھے بہت زیادہ عزیز ہے اور میرے دل میں اس کی بہت چاہت اور محبت ہے، مگر پھر بھی نہ جانے کیوں اس کا رویہ میرے ساتھ ایسا تھا، میرے خیال میں اس نے موبائل والے واقعہ کو بہت زیادہ سیریس لیا کہ میں نے ان کا ان کے دوست کے ساتھ بات چیت اور رابطے کو بہت بڑا ایشو کیوں بنایا، حالانکہ ہماری شریعت بھی غیر محرموں کے ساتھ اتنی زیادہ بات چیت کرنے اور انوالو ہونے کی اجازت نہیں دیتی، اس بات میں ان کے بھائی سید  عارف آفتاب نے بھی میری بڑی سپورٹ کی اور انہیں سمجھایا۔

جمعہ 3 جنوری کو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ رویہ اتنا زیادہ کیوں بگڑا ہوا ہے، کہ آپ اپنے خاوند کو بھی نظر انداز کر رہی ہیں، کہیں آپ کو آپ کا دوست آفتاب تو نہیں یاد آ رہا؟ "اگر ایسا ہے تو آپ اس کے پاس چلی جائیں”۔ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے یہی سوچنا پڑے گا، اور دوسرے کمرے میں چلی گئی، تھوڑی دیر کے بعد میں نے انہیں کہا اس کا مطلب ہے آپ قبول کرتی ہیں کہ آپ کے دل میں اس کا بہت مقام ہے جس پر میری بیوی نے غصے میں آ کر میرے ساتھ بد تمیزی شروع کر دی اور کہا کہ "آپ کو آپ نکے باپ نے بتایا ہے اگر آپ کو پتہ ہے کہ میں کسی اور کے ساتھ انوالو ہوں تو آپ بے غیرت ہیں جو میرے ساتھ رہ رہے ہیں تو مجھے طلاق دے دیں”۔ تو میں نے ان سے کہ طلاق کے بعد کیا کروں گی اور کہاں جائیں گی، اس پر انہوں نے اسی غصہ میں کہا کہ  "تمہارے باپ کے پاس جاؤں گی” جس پر میں نے کہا کہ بات تو آفتاب کی ہو رہی ہے تو تم نے اس کو میرے باپ بنادیا، جس پر میری بیوی نے کہا کہ نہیں زبیر جو تمہارا باپ ہے، اور اس پر انہوں نے کہا کہ مجھے طلاق دے دو، میں نے نظر انداز کیا، کیونکہ میں انہیں طلاق دینے کے بارے میں دور دور تک بالکل بھی نہیں سوچ رہا تھا، نہ ہی میرا کوئی ارادہ تھا مگر پھر میں ان کا ذہن بدلنے کے لیے کہا کہ تم گھر سے چلی جاؤ، پھر میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔ جس پر میری بیوی نے کہا کہ میں گھر سے باہر کیوں جاؤں (رات تقریباً 9 یا 10 بجے کا وقت تھا) اگر آپ نے طلاق دینے ہے تو مجھے یہیں دو میں گھر سے باہر نہیں جاؤں گی، پھر اس پر میں کہا کہ تمہارے ساتھ نیچے گیٹ تک جاتا ہوں تم گھر سے باہر نکل کر مجھے کہو طلاق دو، میں اسی وقت تمہیں طلاق دے دوں گا، مگر میری بیوی نے کہا کہ اگر یم نے طلاق دینی ہے تو مجھے یہیں بچوں کے سامنے دو تاکہ بچوں کو بھی پتا چل جائے، میں گھر سے باہر نہیں جاؤں گی، میرا مقصد اس کا ذہن بدلنا تھا کہ بھائیوں کے گھر جائے گی تو اس کو سمجھائیں گے، میں نے اس سے کہا کہ اپنے بھائیوں کے گھر چلی جاؤ وہاں سے مجھے فون کرنا، مقصد اس کا ذہن بدلنا تھا کہ بھائیوں کے گھر جائے گی تو وہ اس کو سمجھائیں گے۔ مگر میری بیوی بہت زیادہ ہائیپر ہوگئی اور مجھے وہ بات کہی جو کہ اس نے زندگی میں کبھی نہیں کہی تھی اور وہ میرے لیے کسی بہت بڑی گالی یا میری موت کے برابر تھی اور میری زندگی کا کمزور ترین پہلو تھا، اس نے کہا "تمہارے باپ نے بھی تمہاری ماں کو طلاق دی، تمہارے چچا نے بھی چچی کو طلاق اور دوسروں نے بھی طلاقیں دیں، تم بھی اس خاندانی ریت کو نبھا اور مجھے طلاق دو”۔ (یہاں میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے باپ نے آج سے تقریباً 40 سال پہلے جب میری عمر سات سال تھی میری ماں کو طلاق دی تھی اور وہ لمحہ میری زندگی کا المناک وقت تھا)، میری بیوی کی بات سن کر میرا دماغ ماؤف ہو گیا اسی بات پر میری بیوی نے قناعت نہیں کی بلکہ میرا گلا نوچ کر کہا کہ تم کتنے بے غیرت ہو اپنے چھوٹے بھائی عثمانی جو حرام زادہ اور کتی کا بچہ ہے اس کو تم نے کچھ نہیں کہا، یہ گالیاں اس نے دو دفعہ رپیٹ کیں۔

یہ سن کر میں شدید جنونی کیفیت میں مبتلا ہو گیا اور اس کے منہ پر دونوں ہاتھوں سے مسلسل تھپڑوں کی بارش کر دی اور ساتھ ہی ایک ہی سانس میں نے  نہ جانے کتنی دفعہ "طلاق، طلاق، طلاق، طلاق، طلاق، طلاق، طلاق” کے لفظ دہرائے، مجھے کچھ ہوش و حواس نہیں تھا کہ کیا کہہ رہا ہوں اور کیا کر رہا ہوں اور میرے منہ سے یہ الفاظ کیسے نکل رہے ہیں؟

اس دوران میرے بچوں نے زور زور سے رونا شروع کر دیا اور میری بیوی کی ناک سے بھی خون رسنا شروع ہو گیا، اور وہ خود بھی مکمل خاموش ہو گئی اور باتھ روم میں جا کر اپنا خون صاف کرنے لگ گئی، جب میرے اوسان بحال ہوئے تو میں نے یاد کیا کہ میں کیا کر دیا اور کیا کہہ دیا ہے، جس کا قطعاً میں نے نہ کبھی سوچا اور نہ ارادہ کیا اور میں یہ سمجھ رہا تھا کہ ہماری طلاق ہو گئی ہے۔ میری بیوی نے کچھ دیر بعد اپنے بھائیوں کو فون کر کے اطلاع دی اور میں نے بھی اپنے چچا اور بہنوئی کو اس واقعہ کی اطلاق ان الفاظ میں دی "سب کچھ ختم ہو گیا، میں نے نازش کو طلاق دے دی ہے اور اس کے بھائی اس کو لینے آ رہے ہیں آپ بھی آ جاؤ”۔ اس کے کچھ کچھ دیر بعد میرے دونوں سالے آئے اور بڑے سالے نے مجھ سے پوچھنا چاہا جس پر میری بیوی نے کہا کہ "اس نے مجھے تین سے زائد بار طلاق دے دی ہے اب کوئی پوچھنے کی بات باقی نہیں رہی”۔ پھر میرے چچا بھی پہنچ گئے اور پھر میرے سالے نے جاتے ہوئے مجھے سے معذرت کی کہ ہمیں معاف کر دینا کمی اندر ہی تھی۔ (معافی کا مقصد میرے سالے کے نزدیک یہ تھا کہ ہم آپ کے معیار پر پورے نہیں اترے)۔ آپ سے گذارش ہے کہ برائے کرم مذکور بالا واقعات اور حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے شریعت کے مطابق ہماری رہنمائی فرمائیں۔

نوٹ: تعلیق والی تحریر  کے بغیر ہی تین طلاق ہوگئیں ہیں اس لیے جواب میں اس پر کوئی بحث نہیں ہوئی، لہذا مذکورہ تحریرکو کمپوز نہیں کیا گیا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تین طلاقیں ہو چکی ہیں لہذااب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ ہی صلح ہو سکتی ہے۔

توجیہ و تفصیل:

1۔ ایک طلاق شوہر کے اس جملے سے ہوئی:

 "میں نے اپنے بھائی کو یہ بھی کہا کہ وہ میری بیوی کو جا کے بتا دے  "اگر وہ اس کے ساتھ واپس نہ آئی تو میری طرف سے طلاق ہو گی۔”

اور بیوی شوہر کے بھائی کے ساتھ واپس نہیں آئی۔ لہذا اس سے ایک طلاق ہو گئی۔

نوٹ: اس تعلیق کا اگرچہ بیوی کو علم نہیں ہوا، لیکن شرعی نقطۂ نظر سے بیوی کو اس کا علم ہونا ضروری نہیں۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

فإن اختلفا في وجود الشرط (و في الرد) أي اصلاً أو تحققاً …. أي اختلفا في وجود اصل التعليق بالشرط أو في تحقق الشرط بعد التعليق فالقول له مع اليمين.  (4/ 601)

نیز مزید تفصیل کے لیے دیکھیے "فتاویٰ عثمانی: 2/ 390، فتاویٰ دار العلوم دیوبند: 10/ 38، فتاویٰ مفتی محمود: 6/ 260″۔

اس طلاق کے بعد رجوع ہو گیا اور بیوی شوہر کے نکاح میں ہی رہی، لیکن ایک طلاق شمار میں رہی اور آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا حق باقی رہا۔

2۔ باقی دو طلاقیں شوہر کے غصے میں طلاق کا لفظ کئی بار بولنے سے ہوئیں۔ ان الفاظ کے بارے میں اگرچہ شوہر کا یہ دعویٰ ہے کہ اس وقت مجھے کچھ ہوش نہ تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے؟ لیکن شرعی نقطۂ نظر سے ہوش و حواس کھو بیٹھنے کے لیے ضروری ہے کہ بیوی کی مار پٹائی اور طلاق کا لفظ کہنے کے علاوہ بھی کوئی فعل یا قول خلافِ عادت صادر ہو، جبکہ مذکورہ صورت میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ لہذا عورت پر لازم ہے کہ وہ ان کو طلاق ہی سمجھے، کیونکہ وہ ظاہر پر عمل کرنے کی پابند ہے۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش و نحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله و أفعاله الخارجة عن عادته. (4/ 439)

اور دوسری جگہ ہے:

المرأة کالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه. (4/ 449)

3۔ باقی رہی وہ تعلیق جو شوہر نے علیحدہ ایک پرچے پر لکھ کر دی ہے تو تین طلاقیں ہو چکنے کے بعد اس پر بحث کرنے کی کوئی حاجت نہیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved