• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے تین طلاقناموں پر بغیر پڑھے دستخط کر کے بیوی کوبھیج دیئے، کیارجوع ہوسکتاہے؟

استفتاء

السلام علیکم مفتی صاحب میرا نام ****ہے ،میں ******میں رہتی ہوں ،میں اپنے شوہر کے ساتھ ہنسی خوشی گھرسے آئی تھی ،کوئی آپس میں گھریلو جھگڑا نہیں تھا ،ہم دونوں میاں بیوی آپس میں بہت خوش تھے پھر میرے شوہر اپنے والدین کے کہنے پر مجھے نہیں لینے آئے اور دو ماہ کے بعد مجھے طلاق کا نوٹس بھیج دیا ،وہ مجھے طلاق نہیں دینا چاہتے تھے، ان کے والدین نے دباؤ ڈالا ،میرےاولاد نہیں ہوئی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے مجھے طلاق کا نوٹس بھیج دیا ۔طلاق کا پہلا نوٹس2021-1-12  کو بھیجا اوردوسرانوٹس2021-3- 5کوبھیجااس کے بعد انہوں نے صلح نامہ کےذریعےصلح کرلی ۔جب میرے ساس سسر کو پتہ چلا کہ میرے بیٹے نے ہم سے پوچھے بغیر صلح کرلی تو انہوں نے پھر مجھے ایک ماہ کے بعد طلاق ثلاثہ کا نوٹس بھیج دیا ،17 اپریل کو مجھے طلاق ثلاثہ  کے نوٹس کا پتہ چلا ،لیکن مجھے وصول نہیں ہوا یونین کونسل کے دفتر میں ہی ہے ۔مجھے آپ سےیہ پوچھناہےکہ جو17اپریل کوطلاق ثلاثہ کےنوٹس کاپتہ چلاہےاس کےبارےمیں آپ مجھےکیاجواب دیں گے؟میرےشوہراب بھی چاہتےہیں کہ ہم دونوں اپناگھربسائیں کیاہماری صلح کی کوئی گنجائش ہے؟

شوہر کا بیان :

’’گھر کے حالات انتہائی کشیدہ ہو چکے تھے جس کی وجہ سے یہ قدم اٹھانا پڑا کہ میں نے طلاق نامے  بیوی کو بھجوا دیئے تھے لیکن دستخط کرتے وقت طلاق نامے میں نےنہ تو پڑھے  تھے اور نہ ہی مجھے پڑھ کرسنائے گئے تھے البتہ مجھے اتنا معلوم تھا کہ یہ طلاق نامے ہیں  بس میرے سامنے طلاق نامے آتے تو میں دستخط کر دیتا تھا اور میں اس پر قسم دینےکو بھی تیار ہوں۔‘‘

نوٹ :پہلے طلاق نامے سے لے کر تیسرے طلاق نامے تک تین ماہواریاں نہیں گزریں تھیں۔

طلاق کےنوٹس آخرمیں لف ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سےبیوی شوہرپرحرام ہوچکی ہے لہذااب نہ رجوع ہوسکتاہےاورنہ صلح کی گنجائش ہے ۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں تینوں طلاق نا مے شوہر نے نہ تو خود پڑھے تھے اور نہ اسے پڑھ کر سنائے گئے تھے اس لئے شوہر نے جب پہلے طلاق نامہ پر دستخط کیے  تو اس سے ایک رجعی طلاق واقع ہوئی اور بیوی کی عدت شروع ہو گئی۔ اس کے تقریبا دو ماہ بعد شوہر نے جب دوسرا طلاق نامہ بھیجا تو اس سے الصريح يلحق الصريح کےتحت دوسری رجعی طلاق واقع ہوئی ۔پھر اس کے تقریبا ڈیڑھ ماہ بعد لکھے گئے تیسرے طلاق نامے سے تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی۔

بدائع الصنائع (295/3)میں ہے :

فاما الطلقات الثلاث فحكمها الاصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر.

فتاوی دارالعلوم دیوبند(124/9) میں ہے:

سوال:  زید کی والدہ اور بیوی میں تنازع ہوا جس کی وجہ سے زید نے ایک طلاق کے ارادہ سے اسٹام خریدا اسٹام (فروش )ایک ہندو ہے اس سے زید نے طلاق نامہ لکھوایا باوجود یہ کہ زید نے اس کو قبل از تحریر یہ کہہ دیا تھا کہ میری جانب سے ایک طلاق تحریر کر دینا مگر اس نے زید کے ایک دشمن کی اندرونی سازش سے بجائے ایک طلاق کے تین طلاق تحریر کر دی اور زید نےبوجہ حسن ظن کے بدون پڑھنے کے طلاق نامہ پر دستخط کر دئیے زید کا بیان حلفی ہم رشتہ استفتاءہے اس صورت میں ایک طلاق واقع ہوگی یا تین طلاق ہوں گی؟

جواب: اس صورت میں موافق بیان زیدکے اس کی زوجہ پر ایک طلاق واقع ہوئی تین واقع نہیں ہوئی پس زید اپنی زوجہ کو عدت کے اندر بدون نکاح کے رجوع کرسکتا ہے اور بعد عدت کے نکاح جدیدبلاحلالہ کےکر سکتا ہے اور اگر زید نے جھوٹ کہااور درحقیقت اس نے تین طلاق لکھنے کو کہا تھا تو اس کا وبال اس پر ہے مگر موافق حکم شریعت کے زید کے بیان کے موافق اس صورت میں ایک طلاق رجعی کا حکم کیا جاوے گا در مختار میں ہے ويقع بها اي بهذه الالفاظ الخ واحدة رجعيةالخ

فتاوی محمودیہ (637/12)میں ہے:

 ’’اگر اس طلاق نامہ میں یہ قید نہیں تھی کہ بیوی کو پہنچ جائے تب طلاق ہے توطلاق نامہ لکھتے ہی طلاق ہوگئی بیوی کو علم ہو یا نہ ہو۔،،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved