• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

رجوع کے بعد مزید دو طلاقیں دینا، تین طلاقوں کو ایک سمجھنا

استفتاء

یکم مارچ 1998ء کو ہماری شادی ہوئی، صرف 2-3 ماہ ہی سکون سے گذرے، اس کے بعد معمولی معمولی باتوں پر جھگڑا کرنا گندی غلیظ گالیاں بکنا معمول بن گیا۔ میں اعتراض کرتی کہ میرے بوڑھے ماں باپ کو گالیاں نہ دو، تو بہت بری طرح سے مارتا اور کہتا کہ "اپنے باپ کے گھر چلی جاؤ”، کئی بار چھوٹی سی بات کے جھگڑے پر میرے والد صاحب اور میری باجی کو فون کر کے کہتا "اپنی بیٹی کو آکر لے جائیں، میں نے اسے فارغ کر دیا ہے”۔ اس طرح کے الفاظ کہ "میں تمہیں چھوڑ دوں گا، تم تو رکھنے کے قابل ہی نہیں، یا تم میری طرف سے فارغ ہو”، ایک بار نہیں بلکہ کئی بار کہہ چکے ہیں، میں دین کے معاملے میں لاعلم تھی کہ یہ باتیں کتنی غلط ہیں۔

گھر میں اخراجات کی بہت تنگی تھی، صحیح طریقے سے کام نہیں کرتے تھے، کبھی کام پر جانا اور کبھی نہ جانا، میں اپنے بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خود محنت کرتی، بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر گذارہ کرتی، سات سال پہلے انہوں نے میری اپنی محنت کے پیسوں سے بنایا ہوازیور مجھ سے مانگا اور میرے انکار کرنے پر مجھے بہت زیادہ مارا، اور چھین لیا، اس پر میرے والد، بڑی بہنیں اور بہنوئی آئے، انہوں نے کہا کہ اسے لے جائیں، میں نے اسے نہیں رکھنا۔ وہ ڈانٹ ڈپٹ کر صلح کروا کر چلے گئے، لیکن ہر وقت کی مار پیٹ ان کا معمول بن گئی، تین سال گذر گئے۔ مکان کے معاملے میں جھگڑا ہوا، میں نے اپنے گھر والوں کو بلایا، انہوں نے ان کے سامنے ایک طلاق دی، اور گھر سے نکال دیا، اٹھارہ دن بعد رشتہ داروں کے ذریعے صلح کر کے گھر لے گئے۔ اب پھر چھ  اگست کو گھر کے اخراجات پر ہمارا جھگڑا ہوا، انہوں نے مجھے دو بار کہا کہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”، پھر میرے بہن بھائی، رشتہ دار آئے ان کے پوچھنے پر انہوں نے اعتراض کیا کہ میں نے طلاق سوچ سمجھ کر دی ہے، یہ اب میری طرف سے فارغ ہے۔

شوہر کا بیان

میرا بیان یہ ہے ، جو یہ کاغذ پر مجھے انہوں نے لکھ کر بھیجا یہ ہم دونوں کا بیان تھا، مگر اب یہ عورت اپنے بیان سے مڑ رہی ہے، اپنے دوسرے بیان میں جو فارغ والی بات کی ہے، میں تسلیم نہیں کرتا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کا بیان یہ ہے کہ اس نے "فارغ کر دیا” یا "تو میری طرف سے فارغ ہے” وغیرہ کنائی الفاظ استعمال نہیں کیے، البتہ اس نے صریح الفاظ میں ایک مرتبہ طلاق دی اور پھر رجوع کر لیا۔ اس کے بعد پھر دو  صریح طلاقیں اکٹھی دیں۔ یہ کل تین طلاقیں ہو ئیں۔

باقی یہ کہنا یا یہ سمجھنا کہ "دو یا تین اکٹھی طلاق دینے سے ایک ہی طلاق ہوتی ہے”، یہ بات خود حدیث اور جمہور صحابہ ؓ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ اربعہ اور جمہور امت کے خلاف ہے، اس لیے اس کا کوئی اعتبار نہیں۔

1۔ عن مجاهد قال کنت عند ابن عباس رضی الله عنه فجائه رجل فقال انه طلق امرأته ثلاثاً فسکت حتی ظننت أنه سیردها الیه فقال ینطلق أحدکم فیرکب الأحموقة ثم یقول یا ابن عباس یا ابن عباس ان الله قال و من یتق الله یجعل له مخرجا و انک لم تتق الله فلا أجد لک مخرجا عصیت ربک و بانت منک امرأتک۔ (أبوداؤد، حدیث: 2197)

ترجمہ: مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس( بیٹھا ) تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بيوي کو ( اکٹھی ) تین طلاقیں دے دی ہیں تو ( کیا کوئی گنجائش ہے۔ اس پر ) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اتنی دیر تک خاموش رہے کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ ( حضرت کوئی صورت سوچ کر ) اسے اس کی بیوی واپس دلادیں گے۔ پھر انہوں نے فرمایا تم میں سے ایک شروع ہوتا ہے تو حماقت پر سوار ہوجاتا ہے ( اور تین طلاقیں دے بیٹھتا ہے ) پھر آکر کہتا ہے اے ابن عباس! اے ابن عباس! ( کوئی راہ نکالیے ) کی دہائی دینے لگتا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

و من یتق الله یجعل له مخرجا۔

 ترجمہ: (جو کوئی اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کے لیے خلاصی کی راہ نکالتے ہیں ) تم نے تو اللہ سے خوف نہیں کیا ( اور تم نے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں جو کہ گناہ کی بات ہے) تو میں تمہارے لیے کوئی راہ نہیں پاتا ( اکٹھی تینوں طلاقیں دے کر ) تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی۔

2۔ عن نافع عن ابن عمر قال ۔۔۔ اما أنت طلقتها ثلاثاً فقد عصیت ربک فیما أمرمن طلاق امرأتک و بانت منک۔ ( مسلم: 1471)

ترجمہ: نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے  حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ( اکٹھی تین طلاق دینے والے سے ) کہا تم نے اپنی بیوی کو (اکٹھی) تین طلاقیں دی ہیں تو بیوی کو طلاق دینے کے بارے میں جو تمہارے رب کا حکم ( یعنی بتایا ہوا طریقہ ) ہے اس میں تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور تمہاری بیوی تم سے ( طلاق مغلظ کے ساتھ)  جدا ہوگئی۔

3۔ أن رجلا من أهل البادیة طلق امرأته ثلاثا قبل أن یدخل بها۔۔۔ فقال أبو هریرة الواحدة تبینها و الثلاث تحرمها حتی تنکح زوجا غیره و قال ابن عباس  مثل ذلک۔ ( مؤطا مالک: 1182)

ترجمہ: اہل بادیہ میں سے ایک شخص نے اپنی بیوی کو رخصتی سے پہلے ہی ( اکٹھی ) تین طلاقیں دے دیں۔۔۔ مسئلہ پوچھنے پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ( جواب میں ) فرمایا ایک طلاق دی تو اس سے جس عورت کی رخصتی نہ ہوئی ہو نکاح سے نکل جاتی ہے اور تین طلاقیں (اکٹھی) دی ہوں ( یعنی یوں کہا کہ تجھ کو تین طلاق ) تو یہ اس عورت کو حرام کر دیتی ہیں یہاں تک کہ وہ دوسرے شخص سے نکاح کرے۔

4۔ ومذهب جماهير العلماء من التابعين ومن بعدهم منهم الأوزاعي والنخعي والثوري وأبو حنيفة وأصحابه ومالك وأصحابه ومالك وأصحابه والشافعي وأصحابه وأحمد وأصحابه وإسحاق وأبو ثور وأبو عبيد وآخرون كثيرون عل أن من طلق امرأته ثلاثا وقعن. (عمدة القاري: 9/ 537)

ترجمہ: جمہور علماء کا جن میں تابعین، تبع تابعین اور بعد کے حضرات شامل ہیں یہ مذہب ہے کہ تین طلاقیں تین ہی ہوں گی، اور یہی امام اوزاعی، امام نخعی، امام ثوری، امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق بن راہویہ، امام ابو ثور اور امام ابو عبیدہ رحمہم اللہ وغیرہ کا مذہب ہے۔

لہذا مذکورہ صورت میں تین طلاقیں ہو گئیں ہیں، بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے، اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح ہو سکتی ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved