• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اگر کل تک میری بہن کا سامان گھر نہ پہنچا تو آپ کی بیٹی کو طلاق ہے

استفتاء

میری بہن کی شادی میرے برادر نسبتی سے ہوئی تھی۔ اس نے میری بہن کو طلاق دیدی تو میں نے صبح دس بجے اپنی ساس کو فون کر کے اس سے سامان مانگا۔ اس نے کہا کہ ’’میرے بیٹے نہیں مانتے‘‘۔ میں نے آخر میں دھمکی دیتے ہوئے  کہا کہ ’’اگر کل تک میری بہن کا سامان گھر نہ پہنچا تو آپ کی بیٹی کو طلاق ہے‘‘۔ پھر پانچ منٹ کے بعد ساس کا فون آیا کہ میں اپنی بچی کا گھر بچانا چاہتی ہوں، میں جانوں اور میرے بیٹے! آپ اپنا سامان اٹھا لیں۔ دوسرے دن 9:30 بجے ان کے گھر سے سارا سامان نکل آیا اور 10:30 بجے جہاں پہنچانا تھا وہاں پہنچ گیا۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ اس صورت میں میری بیوی پر طلاق واقع ہو گی یا نہیں؟

واضح رہے کہ میرے ذہن میں ساس کو فون کرنے کے وقت سے 24 گھنٹے مراد تھے۔اور سامان ان چوبیس گھنٹوں کے بعد پہنچا ہے۔ اگرچہ سسرال کے گھر سے نکل پہلے ہی چکا تھا۔ نیز اس صورت میں میری نیت طلاق دینے کی نہیں تھی بلکہ محض ڈرانے کی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک طلاق (رجعی) واقع ہو چکی ہے۔ آئندہ کے لیے خاوند کے پاس صرف دو طلاقوں کا حق باقی ہے۔

توجیہ: خاوند کے الفاظ یہ ہیں: ’’اگر کل تک میری بہن کا سامان گھر نہ پہنچا تو آپ کی بیٹی کو طلاق ہے‘‘ اس جملے میں دو لفظ قابل غور ہیں:

’’کل تک‘‘  سے مراد کیا ہے؟

’’سامان گھر نہ پہنچا‘‘ سے کیا مراد ہے؟

’’کل تک‘‘ کے لفظ میں دو احتمال ہیں:

i۔  اس سے مراد کل طلوع فجر سے پہلے پہلے کا وقت ہو۔

ii۔ کل غروب آفتاب سے پہلے پہلے کا وقت ہو۔

پہلا احتمال عرفاً بعید ہے۔ دوسرا احتمال معتبر ہے۔ البتہ اس احتمال میں جب شوہر نے خود اپنی نیت سے تخصیص کر دی تو وہ معتبر ہو گی۔ چنانچہ شوہر کے بقول اس کی مراد چونکہ وقت کلام سے 24 گھنٹے تھی اس لیے اس تعلیق کا تعلق وقت تکلم سے 24 گھنٹے تک ہوگا۔

دوسرا جملہ’’سامان گھر نہ پہنچا‘‘۔ اس کا مدلول واضح ہے کہ اپنے گھر پہنچنا مراد ہے۔ سسرال کے گھر سے نکل جانے سے یہ مقصود حاصل نہیں ہو گا۔ اور خود متکلم نے بھی ایسی کوئی نیت نہیں کی کہ اس کی طرف التفات کیا جائے۔

حاصل یہ ہوا کہ خاوند نے جن الفاظ کے ساتھ تعلیق کی تھی ان کے مطابق تعلیق پائی گئی، اس لیے طلاق واقع ہو گئی۔

في الفتاوى الهندية (1/ 432):

في فتاوى أبي الليث رحمه الله إذا قال لها بالفارسية ارتو فردا زن من باشي (إن كنت امرأتي غداً) فأنت طالق ثلاثاً فخالعها بعد ما طلع الفجر من الغد ينظر إن كان مراد الزوج من كلامه السابق منع كونها امرأة له في شيء من الغد فإذا أخر الخلع إلى ما بعد طلوع الفجر طلقت ثلاثاً و إن لم تكن له نية إذا خالعها قبل غروب الشمس من الغد لا تطلق بحكم اليمين فإن خالعها قبل غروب الشمس من الغد ثم تزوجها قبل غروب الشمس طلقت بحكم اليمين.

و فيه أيضاً (1/ 368):

و إذا قال أنت طالق في مجيء يوم إن قال ذلك ليلاً طلقت كما طلع الفجر من اليوم الجائي. و إن قال ذلك في ضحوة النهار طلقت إذا جاءت الساعة التي حلف فيها من اليوم الثاني.

و في الهداية (فصل في إضافة الطلاق إلى الزمان):

و لو قال أنت طالق غداً وقع عليها الطلاق بطلوع الفجر لأنه وصفها بالطلاق في جميع الغد و ذلك بوقوعه في أول جزء منه، و لو نوى به آخر النهار صدق ديانة لا قضاء لأنه نوى التخصيص في العموم و هو يحتمله لکنه مخالف للظاهر…………………….. فقط و الله تعالى أعلم

مفتی عبد الرحمن صاحب کی رائے

بندہ کے خیال میں مذکورہ صورت میں طلاق نہ ہونی چاہیے۔ کیونکہ خاوند کے الفاظ میں ’’کل تک‘‘ کا لفظ ہے۔ یہ لفظ کل شام تک کے وقت کو شامل ہے۔ اور کل شام سے پہلے پہلے سامان مطلوبہ جگہ پہنچ گیا ہے۔ باقی رہا متکلم کا اسے 24 گھنٹے پر محدود کرنا یہ معتبر نہیں۔ کیونکہ سائل کا مقصود طلاق دینا نہیں تھا بلکہ سامان اور اس کے درمیان تخلیہ تھا۔ جو چوبیس گھنٹے سے قبل پایا گیا۔ ورنہ شام تک تو بہر حال سامان مطلوبہ جگہ پہنچ ہی گیا تھا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہم کی رائے

حلف کے باب میں اعتبار عرف کا ہوتا ہے۔ تخصیص کی نیت اس وقت معتبر ہوتی ہے جب جس سے قسم لی گئی ہے وہ مظلوم ہو۔

مفتی رفیق صاحب کی رائے

مذکورہ صورت میں جو جمہ طلاق کے لیے استعمال کیا ہے وہ یہ ہے کہ ’’اگر کل تک میری بہن کا سامان گھر نہ پہنچا تو آپ کی بیٹی کو طلاق ہے‘‘۔ پھر شوہر کا کہنا ہے کہ میرے ذہن میں ساس کو فون کرنے کے وقت سے 24 گھنٹے مراد تھے اور سامان ان چوبیس گھنٹوں کے بعد پہنچا، یعنی فون دس بجے کیا تھا، اور سامان ساڑھے دس (10:30) بجے گھر پہنچا ہے۔

عرف میں ’’کل تک‘‘ کے لفظ کو جب مستقبل کی طرف منسوب کرکے بولا جاتا ہے تو اس سے آئندہ دن کے غروب شمس تک کا وقت مراد ہوتا ہے۔ اس لیے اگر عرفی معنیٰ پیش نظر رکھیں تو مذکورہ صورت میں طلاق نہیں ہونی چاہیے کیونکہ سامان غروب شمس سے پہلے سائل کے گھر پہنچ گیا۔

لیکن چونکہ سائل کی نیت یہ تھی کہ کل دس (10) بجے تک سامان گھر پہنچ جائے اور کل دس (10) بجے تک سامان گھر نہیں پہنچا، لہذا کیا سائل کی اس نیت کے پیش نظر مذکورہ صورت میں طلاق کا حکم لگایا جا سکتا ہے یا نہیں؟ تو اس سلسلے میں ایک پہلو تو یہ ہے کہ حلف میں چونکہ اعتبار عرف کا ہوتا ہے اور تخصیص کی نیت اس وقت معتبر ہوتی ہے جب حالف مظلوم ہو اور مذکورہ صورت میں چونکہ حالف مظلوم نہیں اس لیے تخصیص کی نیت کا اعتبار نہ ہو۔ اور طلا ق واقع نہ ہو۔ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ کتب فقہ میں ہمیں یہ جزئیہ ملتا ہے :

ولو قال أنت طالق غداً وقع عليها الطلاق بطلوع الفجر … ولو نوى به آخر النهار صدق ديانةً لا قضاءً لأنه نوى التخصيص في العموم وأو يحتمله لكنه مخالف للظاهر. (الهداية، فصل في إضافة الطلاق إلى الزمان)

اس جزئیے سے مندرجہ ذیل امور معلوم ہوئے:

i۔ دیانتاً عموم میں تخصیص کی نیت معتبر ہوتی ہے خواہ حالف مظلوم ہو یا نہ ہو۔

ii۔ لیکن اس نیت کا قضاءً اعتبار نہ کریں گے کیونکہ ظاہر کے خلاف ہے۔

اس جزئیے کے پیش نظر ہماری مذکورہ صورت میں دیانتاً طلاق ہونی چاہیے اور قضاءً نہ ہونی چاہیے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ مذکورہ صورت میں مرد کے حق میں طلاق ہو گئی اور عورت کے حق میں طلاق نہیں ہوئی لأنها كالقاضي.

لیکن فقہاء کا یہ بھی ضابطہ ہے کہ عورت ظاہر کے خلاف مرد کی نیت کا اعتبار اس وقت نہیں کرتی جب اس نیت کی وجہ سے شوہر کو تخفیف کا فائدہ ہو اور ظاہر کا اعتبار کرنے میں شوہر پر تشدید ہوتی ہو، جبکہ مذکورہ صورت میں معاملہ برعکس ہے کہ ظاہر کا اعتبار کرنے میں مرد پر تخفیف ہے اور نیت کا اعتبار کرنے میں مرد پر تشدید ہے۔

لہذا مذکورہ صورت میں مرد کی نیت کا اعتبار ہونا چاہیے اور ایک رجعی طلاق واقع ہونی چاہیے۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved