• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

واٹس ایپ کے ذریعے طلاق کا حکم

استفتاء

اٹیچمنٹ میں میرا بیان اور اس کا دیا گیا فتویٰ اور جو تین طلاقیں دی تھیں، لگا دی ہیں۔ میرے پہلے بیان میں ایک چیز رہ گئی تھی وہ یہ ہے کہ پہلی طلاق رمضان 2015 سے پہلے بذریعہ واٹس ایپ دی تھی اور دوسری، تیسری طلاق لکھ کر بذریعہ خط 27 اگست 2015ء کو بھیجی تھی۔

ہم دونوں میاں بیوی کی طرح نہیں رہے ہیں اور نہ سوئے ہیں، لیکن تنہائی میں کئی دفعہ ملے ہیں، صرف جماع نہیں ہوا تھا باقی کیا ہے۔

وضاحت مطلوب ہے: 1۔ واٹس ایپ میسج کا ٹیکسٹ لکھیں؟

2۔ پہلی طلاق دینے سے پہلے کیا  تنہائی ہو چکی تھی؟

3۔ پہلی طلاق اور دوسری طلاقوں کے درمیان وقفہ کتنا تھا؟

جواب وضاحت: 1۔ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔

2۔ جی مکمل تنہائی ہو چکی تھی۔

3۔ پہلی طلاق مئی کے شروع میں اور دوسری، تیسری طلاق اسی سال 27 اگست کو دی تھی۔

وضاحت مطلوب ہے: جماع سے رکاوٹ کیا تھی؟

جواب وضاحت: کوئی رکاوٹ نہیں تھی، بس اس وجہ سے نہیں کیا تھا کہ رخصتی سے قبل اسے ٹھیک نہیں سمجھتے تھے، اور لڑکی ابھی پڑھ رہی تھی۔

وضاحت مطلوب ہے: 1۔  پہلی اور دوسری ، تیسری طلاقوں کے درمیان  عدت یعنی عورت کو مکمل 3 ماہواریاں گذر چکی تھیں؟

2۔ کیا پہلی طلاق کے بعد شوہر نے رجوع کیا تھا؟

جواب وضاحت: 1۔ عورت کی عادت عرصہ سے ہر مہینہ کا آخری ہفتہ ہے۔ لہذا یقینی طور پر عدت گذر چکی تھی۔

2۔ عورت کے مطالبہ پر شوہر نے پہلی طلاق دینے سے اگلے دن زبان سے کہہ دیا تھا کہ ٹھیک ہے، میں تمہیں نہیں چھوڑتا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تمام وضاحتوں کے بعد بھی وہی جواب ہے جو سابقہ فتوے میں تھا، یعنی کہ صرف پہلی طلاق واقع ہوئی ہے، اور پہلی طلاق کے بعد چونکہ نکاح ختم ہو گیا تھا اس لیے دوسری اور تیسری طلاق واقع نہیں ہوئیں۔ البتہ میاں بیوی اگر اکٹھے رہنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کر کے رہ سکتے ہیں، اور آئندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہو گا۔

توجیہ: تینوں طلاقیں تحریری طور پر دی گئی ہیں، اور طلاق مستبین غیر مرسوم کی قبیل سے ہیں۔ طلاق مستبین غیر مرسوم میں اگر شوہر کی نیت ایقاع طلاق کی ہو تو طلاق پڑ جاتی ہے۔ شوہر نے وضاحت کی ہے کہ اس کی نیت تینوں تحریروں سے ایقاع طلاق کی تھی۔ لہذا پہلے میسج سے پہلی طلاق واقع ہو گئی۔ لیکن خلوتِ صحیحہ عورت کو عدت اور  مزید طلاقیں لاحق ہونے کے لیے تو وطی کے قائم مقام ہوتی ہے۔ رجعی طلاق واقع ہونے کے لیے وطی کے قائم مقام نہیں ہوتی۔ چنانچہ خلوتِ صحیحہ کے بعد مگر قبل از صحبت دی جانے والی طلاق، طلاق بائنہ واقع ہوتی ہے۔

اور چونکہ فی الواقع پہلی طلاق قبل الدخول ہے اس لیے اس سے طلاق بائن واقع ہوئی ہے (اگرچہ احتیاطاً دوران عدت مزید طلاقیں بھی پڑ جاتی ہیں) اس لیے شوہر کا زبان سے رجوع کرنا یا خلوت صحیحہ کے ذریعہ رجوع کرنا درست نہیں ہے۔

جب باقی دو طلاقیں عدت گذرنے کے بعد دی گئیں تو وہ واقع نہ ہوئیں۔

وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع، وإلا لا. (رد المحتار: 4/ 442)

( في ثبوت النسب وتأكد المهر و النفقة والسكنى والعدة وحرمة نكاح أختها وأربع سواها وحرمة نكاح الأمة ومراعاة وقت الطلاق في حقها لا في حق الإحصان وحرمة البنات وحلها للأول والرجعة. (تنوير: 4/ 240)

والحاصل أنه إذا خلا بها خلوة صحيحة ثم طلقها طلقة واحدة فلا شبهة في وقوعها، فإذا طلقها في العدة طلقة أخرى فمقتضى كونها مطلقة قبل الدخول أن لا تقع عليها الثانية، لكن لما اختلفت الاحكام في الخلوة أنها تارة تكون كالوطئ وتارة لا تكون جعلناها كالوطئ في هذا، فقلنا بوقوع الثانية احتياطا لوجودها في العدة، والمطلقة قبل الدخول لا يلحقها طلاق آخر إذا لم تكن معتدة، بخلاف هذه.

والظاهر أن وجه كون الطلاق الثاني بائنا هو الاحتياط أيضا، ولم يتعرضوا للطلاق الاول وأفاد الرحمتي أنه بائن أيضا لانه طلاق قبل الدخول غير موجب للعدة، لان العدة إنما وجبت لجعلنا الخلوة كالوطئ احتياطا، فإن الظاهر وجود الوطئ في الخلوة الصحيحة.

 ولان الرجعة حق الزوج وإقراره بأنه طلق قبل الوطئ ينفذ عليه فيقع بائنا، وإذا كان الاول لا تعقبه الرجعة يلزم كون الثاني مثله ا ه.ويشير إلى هذا قول الشارح (طلاق بائن آخر) فإنه يفيد أن الاول بائن أيضاً. (رد المحتار: 6/ 249) …………………. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved