• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تنجیز بصورت تعلیق۔ ’’اگر تم نے گھر نہیں جانا تو تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘

استفتاء

میری شادی سے پہلے والدین نے سسرال والوں سے یہ طے کیا تھا کہ بچی کے پڑھائی کا ایک سال باقی ہے انہوں نے کہا  کہ ہم پڑھائی میں رکاوٹ نہیں ڈالیں گے بس آپ شادی کر دیں۔

شادی کے بعد میں ایم بی اے کے پیپر دینے کے لیے اپنے امی ابو کے گھر آگئی۔ میرے میاں دوبئی میں تھے، ان کا فون آیا اور مجھ سے کہا کہ تم اپنے گھر (سسرال) چلی جاؤ۔ میں نے کہا میں نے ابھی نہیں جانا۔ اس پر انہوں نے ناراض ہو کر کہا کہ ’’اگر تم نے گھر نہیں جانا تو تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘۔ اس کے بعد ہماری بات ختم ہو گئی اور میں ابھی تک سسرال نہیں گئی۔ کچھ دن بعد ایک عالم سے مسئلہ پوچھنے کے بعدان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا میری نیت تو طلاق دینے کی نہیں تھی اور یہ بھی کہا کہ اس طرح کے الفاظ ہمارے گھر میں نارمل ہیں، میں اس کو طلاق نہیں سمجھتا۔ اس لیے وہ تجدید نکاح پر بھی آمادہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں طلاق ہوتی ہی نہیں۔ میں نے یہاں کے علماء سے پوچھا ہے وہ کہتے ہیں طلاق نہیں ہوتی۔ سسرال میں مجھے کھانا پینا اور کپڑا جوتا فراہم ہوتا تھا۔ مگر پڑھائی کا خرچہ اور فیس نہیں دیتے تھے۔

میرے والدین چاہتے ہیں کہ وہ میرا دوسری جگہ نکاح کروا دیں۔ اب میرے لیے شریعت کا کیا حکم ہے۔

نوٹ: خاوند کے الفاظ بچی سے فون پر براہ راست سن کر درج کیے گئے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ  صورت میں آپ کے شوہر نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں’’ یعنی اگر تم نے گھر نہیں جانا تو تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘ ان الفاظ سے بیوی کے حق میں ایک طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے اور نکاح ختم ہو جاتا ہے۔ لہذا عدت گذرنے کے بعد اگر آپ دوسری جگہ نکاح کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں۔ اگر دوبارہ اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ رہنا چاہیں تو دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا ضروری ہو گا۔

توجیہ: مذکورہ جملہ کہ ’’ اگر تم نے گھر نہیں جانا تو تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘ کنایہ کی تیسری قسم میں سے ہے، کنایہ کی تیسری قسم کے الفاط اگر غصے اور ناراضگی کی حالت میں کہے جائیں تو ان الفاظ سے بیوی کے حق میں طلاق کا واقع ہونا خاوند کی نیت پر موقوف نہیں ہوتا، بلکہ بیوی کے حق میں بغیر نیت کے بھی طلاق ہو جاتی ہے۔ لہذا اس جملے سے اگرچہ شوہر کی نیت طلاق دینے کی نہیں تھی لیکن یہ جملہ شوہر  نے بیوی کے انکار پر ناراض ہو کر کہا ہے۔ اس لیے بیوی کے حق میں اس جملے سے ایک بائنہ طلاق واقع ہو جائے گی۔

فتاویٰ شامی (4/ 523) میں ہے:

والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط ويقع في حالة الغضب والمذاكرة بلا نية.

فتاویٰ شامی میں دوسری جگہ (2/ 502) ہے:

فالكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بالنية أو دلالة الحال)… و في الشامية: قوله (قضاء) قيد به لأنه لا يقع ديانة بدون النية و لو وجدت دلالة الحال فوقوعه بواحد من النية أو دلالة الحال إنما هو في القضاء فقط كما هو صريح في البحر و غيره……………. فقط و الله تعالى أعلم

فتاویٰ شامی (4/ 449) میں ہے:

والمرأة کالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه.

تنبیہ: مذکورہ جملہ بظاہر تعلیق ہے جس سے طلاق شرط کے واقع ہونے کے بعد ہوتی ہے لیکن چونکہ شوہر نے یہ جملہ بیوی کے انکار کرنے پر ناراض ہو کر کہا ہے، اس لیے یہ جملہ در حقیقت مجازاۃ ہے جو صورتاً تعلیق ہوتی ہے مگر مقصود تنجیز (فوری طلاق دینا)  اور جذبات کی تسکین ہوتا ہے اس لیے اس سے فوراً طلاق ہو جائے گی۔

فتاویٰ شامی (4/582) میں ہے:

قال في البحر فلو سبته بنحو قرطبان وسفلة فقال إن كنت كما قلت فأنت طالق تنجز سواء كان الزوج كما قالت أو لم يكن لأن الزوج في الغالب لا يريد إلا إيذاءها بالطلاق فإن أراد التعليق يدين وفتوى أهل بخارى عليه كما في الفتح اه يعني على أنه للمجازاة دون الشرط كما رأيته في الفتح وكذا في الذخيرة وفيها والمختار والفتوى أنه إن كان في حالة الغضب فهو على المجازاة وإلا فعلى الشرط اه.

اور اگر اس سے مراد تعلیق بھی ہو تب بھی  مذکورہ صورت میں یہ تعلیق عدمی چیز (یعنی نہ جانے) پر ہے جو عام حالات میں تو ابدی ہوتی ہے مگر سیاق و سباق کے قرینہ کی وجہ سے اس کا اطلاق محدود ہو جاتا ہے اور یہاں خاوند کا مقصود یہ نہ تھا کہ کبھی بھی گھر نہ گئی تو میری طرف سے فارغ ہے۔ بلکہ مقصود یہ تھا کہ پہلی فرصت میں گھر نہ گئی تو میری طرف سے فارغ ہے۔ اور عورت پہلی فرصت میں نہیں گئی۔ لہذا اس جملے سے تعلیق مراد لینے کی صورت میں بھی اس جملہ سے طلاق ہو جائے  گی۔

بدائع الصنائع (3/ 23) میں ہے:

 وأما  الموقت دلالة فهو المسمى يمين الفور وأول من اهتدى إلى جوابها أبو حنيفة ثم كل من سمعه استحسنه وما رآه المؤمنون حسنا فهو عند الله حسن وهو أن يكون اليمين مطلقا عن الوقت نصا ، ودلالة الحال تدل على تقييد الشرط بالفور بأن خرج جوابا لكلام أو بناء على أمر نحو أن يقول لآخر: تعال تغد معي، فقال: والله لا أتغدى فلم يتغد معه ثم رجع إلى منزله فتغدى لا يحنث استحسانا والقياس أن يحنث وهو قول زفر وجه القياس أنه منع نفسه عن التغدي عاما فصرفه إلى البعض دون البعض تخصيص للعموم .

( ولنا ) أن كلامه خرج جوابا للسؤال فينصرف إلى ما وقع السؤال عنه والسؤال وقع عن الغداء المدعو إليه فينصرف الجواب إليه كأنه أعاد السؤال. وقال والله لا أتغدى الغداء الذي دعوتني إليه وكذا إذا قامت امرأته لتخرج من الدار فقال لها إن خرجت فأنت طالق فقعدت ثم خرجت بعد ذلك لا يحنث استحسانا لأن دلالة الحال تدل على التقييد بتلك الخرجة كأنه قال إن خرجت هذه الخرجة فأنت طالق.

احسن الفتاویٰ (5/ 188) میں ہے:

’’سوال: کوئی شخص بیوی کو کہے  ’’تو فارغ ہے‘‘ یہ کونسا کنایہ ہے اگر اس بات کو دیکھا جائے کہ ’’فارغ‘‘  کا لفظ اپنے مفہوم و موارد میں خلیہ و بریۃ و بائن کے مقارب ہے، کہا جاتا ہے کہ مکان یا برتن فارغ ہے، یہاں خالی کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے اور کہا جاتا ہے کہ فلاں مولوی صاحب مدرسہ سے فارغ  کر دیے گئے ہیں یا ملازمت سے فارغ ہیں، یہاں علیحدگی اور جدائی کے معنیٰ مین استعمال ہوا ہے جو بائن اور بریہ کا ترجمہ ہے یا اس کے مقارب ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ ’’فارغ‘‘ کے لفظ سے خلیہ و امثالہا کی طرح حالت غضب میں طلاق نہ ہو، لیکن اگر اس امر کو دیکھا جائے کہ ہمارے عرف میں ’’فارغ‘‘  کا لفظ سب کے لیے مستعمل نہیں صرف جواب کا محتمل ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ حالت غضب میں طلاق ہو جائے  (و لو لم ینو) لیکن اگر یہ لفظ رد کا احتمال بھی رکھے تو پھر ہر حالت میں نیت کے بغیر طلاق نہ ہو گی۔ یہ بندہ کے اوہام ہیں، حضرت والا اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔

جواب: بندہ کا خیال بھی یہی ہے کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لیے مستعمل ہے، اس لیے عند القرینہ بلا نیت بھی اس سے طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔‘‘ …………………………….. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved