• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

چھوڑ دیا، گھر جا

استفتاء

خاوند کا بیان

میری بیگم رات زیادہ سو نہیں سکی تھی اس لیے سونے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن بچے  تنگ کر رہے تھے، بار بار بیگم کو اٹھا رہے تھے، بیگم نے کہا بچوں کو دیکھیں،  میں نے کہا کیا  دیکھوں، خود ہی دیکھو بچوں کو تو بیگم نے کہا کہ چھوڑ دیں، میں نے  کہا ’’چھوڑ دیا، گھر جا‘‘ میری بیوی نے جو لفظ بولے میں نے اس وقت بغیر کچھ سوچے سمجھے اس کے مطابق اسے جواب دے دیا کیونکہ بیوی مجھے ڈسٹرب کر رہی تھی اور بچے سنبھالنے کا کہہ رہی تھی۔ میرا ایسا کوئی مطلب نہیں تھا، نہ پہلے کوئی لڑائی ہوئی تھی، نہ غصہ میں تھا، ویسے ہی نارمل بات تھی پہلے ایسی کوئی بات نہیں ہوتی ہمارے درمیان نہ کوئی جھگڑا ہوا تھا مطلب کے اتنی تنگ ہے تو گھر جا کے آرام کر لو۔

مطلب ایسا کچھ نہیں تھا، الفاظ ’’چھوڑ دیا‘‘  کہ نکل گئے، مطلب یہ تھا کہ گھر چھوڑ آتا ہوں اتنی تنگ ہوتو گھر جا کر آرام کر لو۔

بیوی کا بیان

مجھے بہت سخت نیند آرہی تھی، اور میں سونے کی کوشش کر رہی تھی اور بچے مجھے مسلسل تنگ کر رہے تھے، میں نے اپنے خاوند کو کہا کہ بچوں کو دیکھ لیں وہ میرے پاس ہی لیٹے ہوئے تھے اور موبائل دیکھ رہے تھے، میں نے جب ان سے بچے سنبھالنے کا کہا تو انہوں کہا کہ  تمہیں ابھی کسی سونے دینا تم ابھی نہ سو تو میں نے ان سے کہا مجھے  چھوڑ دیں (مطلب یہ تھا کہ مجھے سونے دیں جاگنے کا نہ کہیں) تو خاوند نے نارمل انداز میں کہا کہ ’’چھوڑ دیا گھر جا‘‘۔

نوٹ: دونوں اس تحریر کو اپنا حلفیہ بیان قرار دیتے ہیں۔

سوال: مفتی صاحب یہ الفاظ بولنے کے بعد میں پریشان ہوں کہیں ان الفاظ سے طلاق تو نہیں پڑی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے لفظ ’’چھوڑ دیا‘‘ سے ایک طلاق رجعی واقع ہو چکی ہے۔ طلاق رجعی میں عدت کے رجوع کیا جا سکتا ہے، نئے نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی۔

شوہر کا یہ کہنا کہ ’’گھر جا‘‘ کنایہ کی دوسری قسم میں سے ہے، نارمل یا غصہ کی حالت میں اگر طلاق کی نیت کرے تو طلاق پڑتی ہے ورنہ نہیں۔لہذا اگر شوہر اس لفظ سے طلاق کی نیت کا انکار کرتا ہے پھر اس پر قسم بھی کھاتا ہے تو اس سے طلاق نہیں پڑے گی ورنہ دوسری طلاق بائن پڑے گی جس سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔

ردالمحتار:(2/ 503) میں ہے:

فإذا قال :رها کردم أي سرحتک یقع به الرجعي مع أن أصله کنایة أیضاً وما ذلک إلا لأنه غلب فی عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصریح ما لم یستعمل إلا في الطلاق من أي لغة کانت.

فقہ اسلامی (125، از ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب) میں ہے:

’’دوسری قسم وہ الفاظ جن میں طلاق کا معنیٰ بھی نکلتا ہے اور گالم گلوچ کا معنیٰ بھی نکلتا ہے، مثلاً تو اپنی ماں کے ہاں جا‘‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

جواب دیگر

مذکورہ صورت میں کوئی طلاق نہیں ہوئی۔

توجیہ: یہ ہے کہ اردو زبان میں ’’چھوڑ دیا‘‘ یا ’’میں نے تمہیں چھوڑ دیا‘‘ دو موقعوں پر استعمال ہوتا ہے:

1۔ کسی پکڑی ہوئی چیز یا اختیار کی ہوئی حالت چھوڑنے کے لیے جیسے کسی شخص نے بیوی کا ہاتھ پکڑا رکھا ہو پھر اس کے مسلسل مطالبہ پر چھوڑ کر کہے ’’چھوڑ دیا‘‘ یا بیوی کو تنگ کر رہا ہو تو مسلسل مطالبہ پر تنگ کرنا چھوڑ کر کہے ’’چھوڑ دیا‘‘ یا بیوی کو یہ کہنا کہ ’’اس

دفعہ تو تمہیں چھوڑ دیا‘‘۔

الغرض جہاں بیوی سے جدائی و طلاق مقصود نہیں ہوتا۔

2۔ بیوی سے جدائی و طلاق کے لیے۔ جب بیوی سے جدائی و طلاق کے لیے بولے جائے تو کنایہ ہونے کے باوجود چونکہ طلاق دینے کے لیے اس لفظ کا استعمال غالب ہے اس لیے اس سے رجعی طلاق پڑتی ہے۔

ردالمحتار:(2/ 503) میں ہے:

فإذا قال :رها کردم أي سرحتک یقع به الرجعي مع أن أصله کنایة أیضاً وما ذلک إلا لأنه غلب فی عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصریح ما لم یستعمل إلا في الطلاق من أي لغة کانت.

چونکہ مذکورہ صورت میں بیوی نے اپنے بیان میں وضاحت کی ہے کہ اس کا مقصد یہ تھا کہ اسے سونے سے نہ روکیں بلکہ سونے کے لیے چھوڑ دیں، لہذا جواب میں خاوند کے ’’چھوڑ دیا‘‘ کہنے سے طلاق واقع نہ ہو گی۔

’’گھر جا‘‘ کے الفاظ کنایہ کے نہیں بلکہ ’’اپنی ماں کے گھر جا‘‘ کے الفاظ کنایہ کی تیسری قسم میں شامل ہیں۔ لہذا کوئی طلاق نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved