• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دو ملكوں کی کرنسیوں کی خرید وفروخت سے متعلق

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں ڈالر کی خرید وفروخت کی ایک قیمت حکومت کی جانب سے طے ہوتی ہے مثلاً 105 روپے۔ اور ایک ریٹ بینک کا ہوتا ہے جو اس سے بالعموم ایک روپیہ زائد یعنی 106 روپے ہوتا ہے۔ اور ایک ریٹ اوپن مارکیٹ کا ہوتا ہے، جو اخبارات اور نیٹ وغیرہ پر شائع ہوتا ہے۔ مارکیٹ میں بالعموم خریداری اوپن مارکیٹ کے ریٹ پر ہوتی ہے۔ مگر منی چینجر رسید حکومتی بینک والے ریٹ کی دیتے ہیں، اصل ریٹ کی نہیں دیتے ، حکومتی ریٹ سے زیادہ پر خرید وفروخت نہ کی جائے، لیکن مارکیٹ میں سب کچھ ہورہا ہے، حکومت معاملات کو نظر اندار کرتی ہے تاہم کوئی بڑی ڈیل ہو تو اس پر قانون فعال بھی کر لیا جاتا ہے۔

ان حالات میں ایک شخص کے پاس کچھ ڈالر موجود ہیں۔ دوسرا شخص اس کو کہتا ہے کہ فی ڈالر ایک سو بارہ روپے کے بدلے مجھے تیس دن ادھار پر بیچ دو۔

نوٹ: اس دن ڈالر کی قیمت بینک میں ایک سو پانچ روپے اور مارکیٹ میں ایک سوآٹھ روپے تھی۔

براہ کرم اس مسئلہ کے بارے میں شریعت کی رو سے رہنمائی فرمائیں کہ اس طرح کرنا شرعاً کیسا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جمہور اہل علم کے نزدیک دو مختلف ممالک کی کرنسیوں کی نہ جنس ایک ہے اور نہ قدر ایک ہے، لہذا دو مختلف ممالک کی کرنسیوں کی خرید وفروخت ایسے ہے جیسے روپے پیسوں میں سونے چاندی کی خرید وفروخت۔ کہ روپے پیسے اور سونے چاندی میں نہ اتحاد فی الجنس ہے اور نہ اتحاد فی القدر ہے۔ ایسی صورت میں کمی بیشی کے ساتھ بھی خرید وفروخت جائز ہے اور ادھار بھی جائز ہے، البتہ ادھار صرف ایک طرف سے ہو، دونوں طرف سے نہ ہو۔ کیونکہ دونوں طرف سے ادھار کی صورت میں یہ خرید وفروخت بیع الکالی بالکالی بن جائے گی، جو کہ شرعاً ممنوع ہے۔ لہذا مذکورہ صورت میں  تیس دن کی ادھار پر ایک ڈالر کی 112 (ایک سو بارہ) روپے پاکستانی کے بدلے میں خرید وفروخت جائز ہے۔ بشرطیکہ کسی ایک کرنسی پر مجلس عقد ہی میں قبضہ ہو جائے۔

في بدائع الصنائع (4/487-488):

وكذا إذا تبايعا فلسا بعينه بفلس بعينه فالفلسان لا يتعينان وإن عينا إلا أن القبض في المجلس شرط حتى يبطل بترك التقابض في المجلس لكونه افتراقا عن دين بدين،  ولو قبض أحد البدلين في المجلس فافترقا قبل قبض الآخر ذكر الكرخي أنه لا يبطل العقد لأن اشتراط القبض من الجانبين من خصائص الصرف وهذا ليس بصرف فيكتفي فيه بالقبض من أحد الجانبين لأن به يخرج عن كونه افتراقا عن دين بدين.

 وذكر في بعض شروح” مختصر الطحاوي“ رحمه الله أنه يبطل لا لكونه صرفا بل لتمكن ربا النساء فيه لوجود أحد وصفي علة ربا الفضل وهو الجنس وهو الصحيح.

في الدر المختار:

(باع فلوساً بمثلها أو بدراهم أو دنانير، فإن نقد أحدهما جاز) وإن تفرقا بلا قبض أحدهما لم يجز. (7/433)

تنبيه: [قلت: أي محمد رفيق] قوله: (فإن نقد أحدهما جاز) هذا الحكم في بيع الفلوس بالفلوس مقيد بما إذا كانت الفلوس مختلفة الجنس كما في مسئلتنا، أما إذا كانت متحدة الجنس فلا بد من قبضهما في مجلس العقد، لا لأنه صرف بل لأن اتحاد الجنس يحرم النسيئة ولو من جانب واحد كما مر عن البدائع، والفلوس خصوصاً في زماننا لا تتعين بدون القبض، فلا بد من القبض من الجانبين إذا كانت متحدة الجنس……………………………… فقط و الله تعالى أعلم

جواب دیگر

جمہور اہل علم کے نزدیک مختلف ممالک کی کرنسیوں کی جنس آپس میں مختلف ہے اور مختلف جنس کی اشیاء کا آپس میں تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ جائز ہے۔ بشرطیکہ کسی ایک کرنسی پر مجلس عقد ہی میں قبضہ ہو جائے۔ لہذا مذکورہ صورت میں تیس دن کی ادھار پر ایک ڈالر کی 112 (ایک سو بارہ) روپے پاکستانی کے بدلے میں خرید وفروخت جائز ہے۔

ترمذی شریف میں ہے:

عن عبادة الصامت عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال الذهب بالذهب مثلاً بمثل والفضة بالفضة مثلاً بمثل والتمر بالتمر مثلاً بمثل والبر بالبر مثلاً بمثل والملح بالملح مثلاً بمثل والشعير بالشعير مثلاً بمثل فمن زاد أو ازداد فقد أربى، بيعوا الذهب بالفضة كيف شئتم يداً بيد، وبيعوا البر بالتمر كيف شئتم يداً بيد، وبيعوا الشعير بالتمر كيف شئتم يداً بيد. (1/365).

ہدایہ میں ہے:

إذا اختلف النوعان فبيعوا كيف شئتم. (الهداية مع شرحه فتح القدير: 7/28)

……………………………….. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved