• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ٹوکن کی حیثیت

استفتاء

محتر مفتی صاحب ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے

میرا تعلق معدنیات کے شعبے سے ہے ،چنانچہ اس کی تفصیل یہ ہے کہ کمپنی حکومت سے ایک مخصوص علاقہ میں کام کرنے کے لئے اجازت نامہ لیتی ہے حکومت اجازت نامہ بنا دیتی ہے اس پر کوئی رقم نہیں لیتی البتہ حکومت کا یہ طریقہ کار ہے کہ جب کمپنی معدنیات کی گاڑی نکالتی ہے تو وہ ہر گاڑی پر ٹیکس لیتی ہے چنانچہ ایک شخص نے اجازت نامہ لیا ہوا تھا تو دوسرے شخص نے اس سے یہ اجازت نامہ لیا کہ میں تمہیں 3 لاکھ بطور ایڈوانس(ضمانت) مقررہ تاریخ تک ادا کروں گا اور ہر گاڑی پر 500 دونگا مقررہ تاریخ پر اس کے پاس پیسے نہ تھے اس نے مجھے کہا کہ تم مجھے 3 لاکھ دے دو تم ہمارے شریک بن جاؤ گے اور ہم تمہیں ہر گاڑی پر 200 دیں گے۔بعد میں انہوں نے کہا کہ اس طرح ہمیں کچھ نہیں بچ رہا اب ہم تمہیں کل نفع کا تیسرا حصہ دیں گا  لیکن مجھے ان کے حساب پر اطمینان نہیں ہے اس لیے میں چاہتا ہوں کہ میرا مقرر حصہ ہو کیایہ جائز ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ الف:  ٹوکن منی اس رقم کو کہا جاتا ہے جو سودا ہونے سے قبل یقین دہانی کے لیے مشتری بائع کو دیتا ہے  ٹوکن منی امانت ہے۔  جبکہ بیعانہ سودا ہو جانے کے بعد ثمن کے کچھ حصے کی ادائیگی کا نام ہے۔

ب:  سودا نہ ہونے پر بائع ٹوکن منی واپس لوٹانے کا پابند ہے اور اسی طرح سودے سے انحراف کی صورت میں بائع بیعانہ اور مشتری دوگنا بیعانہ نہیں لے سکتا۔

ج: بیع بیعانہ ادا کرنے سے پہلے منعقد ہو جاتی ہے اس لیے یہ ثمن کا ایک حصہ شمار ہو تا ہے۔

2۔   حنفیہ کے قول کے مطابق بیعانہ کے ضبط کا فتویٰ تو نہیں دیا جا سکتا اور ٹوکن منی کے ضبط کا تو کوئی بھی قائل نہیں ہے البتہ بائع عدالت، پنجائیت یا یونین وغیرہ کے ذریعے مشتری کو مجبور کر سکتا ہے۔ اسی طرح بیعانہ کی صورت میں اگر مشتری انحراف کر دے تو بائع مبیع کو بیچ کر حقیقی نقصان کی تلافی کر سکتا ہے۔

3۔ عربون کو ہی ہمارے عرف میں بیعانہ کہتے ہیں البتہ بائع کے انکار کی صورت میں مشتری کا دوگناہ  بیعانہ لینا اس میں شامل نہیں ہے۔

العربون والعربان بيع فسره ابن منظور بقوله: هو أن يشتري السلعة ويدفع إلى صاحبها شيئاً على أنه إن أمضى البيع حسب من الثمن و إن لم يمض البيع كان لصاحب السلعة ولم يرتجعه المشتري…. و قال ابن قدامة: والعربون في البيع هو أن يشتري السلعة فيدفع إلى البائع درهماً أو غيره على أنه إن أخذ السلعة احتسب به من الثمن وإن لم يأخذه فذلك للبائع. (فقه البيوع: 1/113)

4۔ ٹوکن منی کو ہامش الجدیہ کہتے ہیں۔

وقد جرت العادة في بعض المعاملات اليوم أن أحد طرفي العقد يطالب لآخر بدفع بعض المال عند الوعد بالبيع قبل إنجاز العقد وذلك للتاكد من جديته في التعامل … وكما جرت العادة في بعض البلاد أن المشتري يقدم مبلغاً من الثمن إلى البائع قبل إنجاز البيع وذلك لتأكيد وعده بالشراء ويسمى في العرف هامش الجدية (فقه البيوع: 1/119)

5۔ اگر جانبین کی تصریح یا عرف کی وجہ سے ثمن کے ادا کرنے کی مدت مؤخر ہو تو ایسی صورت میں حبس المبیع لاستیفاء الثمن یعنی قیمت کی وصولی کی خاطر چیز کو روک رکھنے کا حق بائع کو نہ ہو گا ۔ لیکن اگر مشتری نے اس مبیع پر قبضہ نہ کیا اور بائع کے قبضہ میں ہی رہنے دی تو اب اس مبیع سے بائع فائدہ نہیں اٹھا سکتا کیونکہ اس کی ملکیت اب بائع کو حاصل نہیں ہے۔

في بيع النسيئة ليس للبائع حق حبس المبيع. (المجلة مع الشرح للأتاسي: 2/215)

6۔  الف: عقار کی بیع قبل القبض جائز ہے جس کی وجہ  عقار میں ہلاکت نادر الوجود ہونا ہے اسی وجہ سے جہاں ہلاکت کا احتمال ہو تو وہاں عقار کی بیع بھی ناجائز ہو گی۔ سوال میں مذکورہ صورت غیر مقدور التسلیم کی بیع نہیں کیونکہ یہاں حکماً قدرت ہے۔ اور یہ بات غیر مقدور التسلیم سے خارج ہونے کے لیے کافی ہے چنانچہ وہ پیسے دے کر قبضہ لے سکتا ہے یا ایک مخصوص مدت کے بعد قبضہ بہر حال مل جائے گا اس میں کوئی خطر نہیں۔

للمشتري أن يبيع المبيع لآخر قبل قبضه إن كان عقاراً  عند الإمامين، وقال محمد رحمه الله لا يجوز بيعه كالمنقول ومحل الخلاف في عقار لا يخشى هلاكه فلو تصور هلاكه بأن كان علواً أو على شطئ النهر و غور كان كالمنقول لا يصح بيعه اتفاقاً كما في الدر و الدرر والبحر وغيرها. (مجلة مع شرحها للأتاسي: 2/173)

(و) بيع (طير في الهواء لا يرجع) بعد إرساله من يده، أما قبل صيده فباطل أصلا لعدم الملك (وإن) كان (يطير ويرجع) كالحمام (صح) وقيل لا، ورجحه في النهر

قال ح: أقول: فرق ما بين الحمام الآبق فإن العادة لم تقض بعودة غالبا، بخلاف الحمام، وما ادعاه من اشتراط القدرة على التسليم عقبه، إن أراد به القدرة حقيقة فهو ممنوع وإلا لاشتراط حضور المبيع مجلس العقد وأحد لا يقول به، وإن أراد به القدرة حكما كما ذكره بعد هذا، فما نحن فيه كذلك لحكم العادة بعودة ا ه.

قلت: وهو وجيه، فهو نظير العبد المرسل في حاجة المولى فإنه يجوز بيعه، وعللوه بأنه مقدور التسليم وقت العقد حكما إذ الظاهر عوده. (رد المحتار: 7/250)

ب: عقار کی بیع تخلیہ سے پہلے بھی جائز ہے کیونکہ تخلیہ خود حکماً قبضہ ہی ہے ورنہ بیع قبل القبض کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔

تسليم المبيع يحصل بالتخلية وهو أن يأذن البائع للمشتري بقبض المبيع مع عدم وجود مانع من تسلم المشتري إياه….. متى حصل تسليم المبيع صار المشتري قابضا له يعني متى وجدت التخلية على الوجه المذكور في المادة السابقة صار المشتري قابضاً وإن لم يقبضه حقيقة. (مجلة مع شرحها للأتاسي: 2/192)

ج:  حنفیہ کے راجح قول کے مطابق ربح ما لم یضمن اور بیع ما لم یقبض کی نہی منقول کے ساتھ خاص ہے۔

ويجوز بيع العقار قبل القبض عند أبي حنيفة و أبي يوسف رحمهما الله وقال محمد لا يجوز رجوعاً إلى إطلاق الحديث. وقال صاحب القدير في تشريحه: وللنهي عن ربح ما لم يضمن ولو باع العقار بربح يلزم ربع ما لم يضمن … و لهما …. والمانع المثير للنهي وهو غرر الانفساخ بالهلاك منتف فإن هلاك العقار نادر و النادر لا عبرة به … والحديث استدل به معلول به. (فتح القدير: 6/137)

…………………………………………………………. فقط و الله تعالی أعلم

جواب دیگر

4۔3۔2۔1۔ ٹوکن منی اس رقم کو کہا جاتا ہے جو سودا ہونے سے قبل یقین دہانی کے لیے مشتری بائع کو دیتا ہے ’’ہامش جدیہ‘‘ بھی اسے ہی کہا جاتا ہے۔ ۔ ’’العربون‘‘ اسی کا نام ہے۔ البتہ بائع کے انکار کی صورت میں مشتری کا بائع سے اضافی رقم لینا اس میں شامل نہیں ہے۔

ٹوکن منی امانت ہے۔ چنانچہ سودا نہ ہونے پر بائع اسے واپس کرنے کا پابند ہے۔ جبکہ بیعانہ ثمن کا حصہ ہے چنانچہ اگر فریقین میں سے کوئی ایک سودے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے سے انحراف کرے تو اسے عدالت ، پنچائیت یا یونین وغیرہ کے ذریعے مجبور تو کیا جا سکتا ہے مگر اس بیعانہ کو ضبط یا دو گناہ نہیں کیا جا سکتا۔

مشتری کی طرف سے انحراف ہو تو بائع مبیع کو فروخت کر کے اپنے حقیقی نقصان کی تلافی کر سکتا ہے۔ اگر بائع کی طرف سے انکار ہو تو مشتری اپنی رقم واپس لے سکتا ہے۔

العربون والعربان بيع فسره ابن منظور بقوله: هو أن يشتري السلعة ويدفع إلى صاحبها شيئاً على أنه إن أمضى البيع حسب من الثمن و إن لم يمض البيع كان لصاحب السلعة ولم يرتجعه المشتري…. و قال ابن قدامة: والعربون في البيع هو أن يشتري السلعة فيدفع إلى البائع درهماً أو غيره على أنه إن أخذ السلعة احتسب به من الثمن وإن لم يأخذه فذلك للبائع. (فقه البيوع: 1/113)

وقد جرت العادة في بعض المعاملات اليوم أن أحد طرفي العقد يطالب لآخر بدفع بعض المال عند الوعد بالبيع قبل إنجاز العقد وذلك للتاكد من جديته في التعامل … وكما جرت العادة في بعض البلاد أن المشتري يقدم مبلغاً من الثمن إلى البائع قبل إنجاز البيع وذلك لتأكيد وعده بالشراء ويسمى في العرف هامش الجدية (فقه البيوع: 1/119)

5۔ اگر جانبین کی تصریح یا عرف کی وجہ سے ثمن کے ادا کرنے کی مدت مؤخر ہو تو ایسی صورت میں حبس المبیع لاستیفاء الثمن یعنی قیمت کی وصولی کی خاطر چیز کو روک رکھنے کا حق بائع کو نہ ہو گا اور اگر مشتری نے اپنی مرضی سے مبیع پر قبضہ نہ کیا ہو تو بائع اس سے نفع نہیں اٹھا سکتا۔

في بيع النسيئة ليس للبائع حق حبس المبيع. (المجلة مع الشرح للأتاسي: 2/215)

6۔ عقار کی بیع قبل القبض جائز ہے جس کی وجہ  عقار میں ہلاکت نادر الوجود ہونا ہے اسی وجہ سے جہاں ہلاکت کا احتمال ہو تو وہاں عقار کی بیع بھی ناجائز ہو گی۔ سوال میں مذکورہ صورت غیر مقدور التسلیم کی بیع نہیں کیونکہ یہاں حکماً قدرت ہے۔ اور یہ بات غیر مقدور التسلیم سے خارج ہونے کے لیے کافی ہے چنانچہ وہ پیسے دے کر قبضہ لے سکتا ہے یا ایک مخصوص مدت کے بعد قبضہ بہر حال مل جائے گا اس میں کوئی خطر نہیں۔ نیز عقار کی بیع تخلیہ سے پہلے بھی جائز ہے کیونکہ تخلیہ خود حکماً قبضہ ہی ہے ورنہ بیع قبل القبض کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔

للمشتري أن يبيع المبيع لآخر قبل قبضه إن كان عقاراً  عند الإمامين، وقال محمد رحمه الله لا يجوز بيعه كالمنقول ومحل الخلاف في عقار لا يخشى هلاكه فلو تصور هلاكه بأن كان علواً أو على شطئ النهر و غور كان كالمنقول لا يصح بيعه اتفاقاً كما في الدر و الدرر والبحر وغيرها. (مجلة مع شرحها للأتاسي: 2/173)

تسليم المبيع يحصل بالتخلية وهو أن يأذن البائع للمشتري بقبض المبيع مع عدم وجود مانع من تسلم المشتري إياه….. متى حصل تسليم المبيع صار المشتري قابضا له يعني متى وجدت التخلية على الوجه المذكور في المادة السابقة صار المشتري قابضاً وإن لم يقبضه حقيقة. (مجلة مع شرحها للأتاسي: 2/192)

(و) بيع (طير في الهواء لا يرجع) بعد إرساله من يده، أما قبل صيده فباطل أصلا لعدم الملك (وإن) كان (يطير ويرجع) كالحمام (صح) وقيل لا، ورجحه في النهر

قال ح: أقول: فرق ما بين الحمام الآبق فإن العادة لم تقض بعودة غالبا، بخلاف الحمام، وما ادعاه من اشتراط القدرة على التسليم عقبه، إن أراد به القدرة حقيقة فهو ممنوع وإلا لاشتراط حضور المبيع مجلس العقد وأحد لا يقول به، وإن أراد به القدرة حكما كما ذكره بعد هذا، فما نحن فيه كذلك لحكم العادة بعودة ا ه.

قلت: وهو وجيه، فهو نظير العبد المرسل في حاجة المولى فإنه يجوز بيعه، وعللوه بأنه مقدور التسليم وقت العقد حكما إذ الظاهر عوده. (رد المحتار: 7/250)

7۔ حنفیہ کے راجح قول کے مطابق ربح ما لم یضمن اور بیع ما لم یقبض کی نہی منقول کے ساتھ خاص ہے۔

ويجوز بيع العقار قبل القبض عند أبي حنيفة و أبي يوسف رحمهما الله وقال محمد لا يجوز رجوعاً إلى إطلاق الحديث. وقال صاحب القدير في تشريحه: وللنهي عن ربح ما لم يضمن ولو باع العقار بربح يلزم ربع ما لم يضمن … و لهما …. والمانع المثير للنهي وهو غرر الانفساخ بالهلاك منتف فإن هلاك العقار نادر و النادر لا عبرة به … والحديث استدل به معلول به. (فتح القدير: 6/137)

…………………………………………………………. فقط و الله تعالی أعلم

جواب دیگر نیز

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-2۔ ٹوکن منی تو چونکہ سودا کرنے سے پہلے اس لیے دی جاتی ہے کہ بائع کو یقین ہو جائے کہ مشتری خریدنے میں سنجیدہ ہے اور بائع کسی اور سے سودا نہ کرے، اس لیے یہ بائع کے قبضے میں امانت ہو گی اور بیعانہ سودا مکمل ہونے کے بعد کچھ رقم کو ایڈوانس دی جاتا ہے کہ باقی رقم ادا کرنے کے بعد مشتری مبیع پر قبضہ کر لے گا چنانچہ ٹوکن منی کی صورت عقد کے نہ ہونے اور بیعانہ کی صورت میں عقد کے فسخ ہونے کی صورت میں بائع اس رقم کو نہیں رکھ سکتا، اسی طرح بائع کے انکار کی صورت میں مشتری بھی اس سے کوئی رقم اضافی نہیں لے سکتا البتہ ٹوکن منی کی صورت میں وعدہ بیع کو عدالت یا پنچایت کے ذریعے پورا کروا سکتے ہیں یا عدالت کے ذریعے حقیقی نقصان پورا کروا سکتے ہیں۔ اسی بیعانہ کی صورت میں چونکہ بیع ہو چکی ہوتی ہے تو وہاں بھی مجبور کروایا جا سکتا ہے یا اس مکان کو بیچ کر اپنا نقصان پورا کیا جا سکتا ہے البتہ زائد رقم واپس کرنا ہو گی۔

3۔ العربون کی جو تعریف فقہاء نے کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیعانہ اس کا موجودہ نام ہے۔

العربون والعربان بيع فسره ابن منظور بقوله: هو أن يشتري السلعة ويدفع إلى صاحبها شيئاً على أنه إن أمضى البيع حسب من الثمن و إن لم يمض البيع كان لصاحب السلعة ولم يرتجعه المشتري…. و قال ابن قدامة: والعربون في البيع هو أن يشتري السلعة فيدفع إلى البائع درهماً أو غيره على أنه إن أخذ السلعة احتسب به من الثمن وإن لم يأخذه فذلك للبائع. (فقه البيوع: 1/113)

  1. وقد جرت العادة في بعض المعاملات اليوم أن أحد طرفي العقد يطالب لآخر بدفع بعض المال عند الوعد بالبيع قبل إنجاز العقد وذلك للتاكد من جديته في التعامل … وكما جرت العادة في بعض البلاد أن المشتري يقدم مبلغاً من الثمن إلى البائع قبل إنجاز البيع وذلك لتأكيد وعده بالشراء ويسمى في العرف هامش الجدية (فقه البيوع: 1/119)

اس تشریح سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹوکن منی کو ہی ہامش الجدیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

5۔ اگر جانبین کی تصریح یا عرف کی وجہ سے ثمن کے ادا کرنے کی مدت مؤخر ہے تو ایسی صورت میں حبس المبیع لاستیفاء الثمن کی قبیل سے نہ ہو گا اور مشتری کو اس مکان پر فوراً قبضہ کرنے کا اختیار ہو گا اور اگر اس نے اپنی رضا مندی سے قبضہ نہ کیا تو ایسی صورت میں بائع اس سے نفع نہیں اٹھا سکتا۔

في بيع النسيئة ليس للبائع حق حبس المبيع. (مجلة مع شرح للأتاسي: 2/215)

6۔ عقار کی بیع قبل القبض جائز ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ان میں ہلاکت نادر الوجود ہے اور یہ غیر مقدور التسلیم کی بیع نہیں ہے کیونکہ ثمن حوالہ کر کے قبضہ کر کے حوالہ کرنا اس کی قدرت میں ہے اور یہ بیع قبضہ اور تخلیہ دونون سے پہلے ہو سکتی ہے کیونکہ تخلیہ حکمی قبضہ ہی ہوتا ہے۔

للمشتري أن يبيع المبيع لآخر قبل قبضه إن كان عقاراً  عند الإمامين، وقال محمد رحمه الله لا يجوز بيعه كالمنقول ومحل الخلاف في عقار لا يخشى هلاكه فلو تصور هلاكه بأن كان علواً أو على شطئ النهر و غور كان كالمنقول لا يصح بيعه اتفاقاً كما في الدر و الدرر والبحر وغيرها. (مجلة مع شرحها للأتاسي: 2/173)

تسليم المبيع يحصل بالتخلية وهو أن يأذن البائع للمشتري بقبض المبيع مع عدم وجود مانع من تسلم المشتري إياه….. متى حصل تسليم المبيع صار المشتري قابضا له يعني متى وجدت التخلية على الوجه المذكور في المادة السابقة صار المشتري قابضاً وإن لم يقبضه حقيقة. (مجلة مع شرحها للأتاسي: 2/192)

  1. ويجوز بيع العقار قبل القبض عند أبي حنيفة و أبي يوسف رحمهما الله وقال محمد لا يجوز رجوعاً إلى إطلاق الحديث. وقال صاحب القدير في تشريحه: وللنهي عن ربح ما لم يضمن ولو باع العقار بربح يلزم ربع ما لم يضمن … و لهما …. والمانع المثير للنهي وهو غرر الانفساخ بالهلاك منتف فإن هلاك العقار نادر و النادر لا عبرة به … والحديث استدل به معلول به. (فتح القدير: 6/137)

اس حوالے سے معلوم ہوا کہ حنفیہ کے نزدیک بیع ما لم یقبض اور ربح ما لم یضمن کی نہی منقول کے ساتھ خاص ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved