• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے رخصتی سے پہلے بیوی کو تین طلاق کا میسج کیا، بیوی نے نہیں پڑھا، کیا طلاق ہوگئی؟ اگر ہوگئی تو کیا نیا نکاح کرنے سے پہلے بیوی کو طلاق کا بتانا ضروری ہے؟

استفتاء

ہم نے اپنے چھوٹے بھائی کا نکاح 2019ء میں کیا، بھائی کسی اور لڑکی کو پسند کرتا تھا، لیکن والدین کی خواہش کے مطابق اُس کا نکاح خالہ کی بیٹی سے ہوگیا۔ نکاح کے وقت وہ خوش تھا، بعد میں بھی خوش رہا، لیکن کچھ عرصہ بعد اُس نے میسج کرکے اُس کو آزاد کر دیا، بعد میں کچھ ماہ بعد اُس نے اُس کو فون کرکے 3بار بول دیا کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ مفتیان کرام سے پوچھا تو ان کے مطابق ایک طلاق بائن واقع ہوئی۔ دوبارہ نکاح کروایا گیا، لیکن 2020ء میں اُس نے پھر طلاق کا میسج کردیا، یہ میسج اس نے رشتہ داروں کو بھی بھیجا اور ہم بہن بھائیوں کو بھی بھیجا ، لیکن اُس کی بیوی کو اس چیز کا کچھ پتہ نہیں ہے، نہ اُس نے میسج پڑھا نہ سُنا، اُس کے والدین کو بھی معلوم نہیں اور ابھی تک رخصتی بھی نہیں ہوئی۔ آیا طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ کیونکہ اُس لڑکی کو کچھ علم نہیں۔ اگر ہے تو دوبارہ نکاح کے لیے اُس لڑکی کے علم میں ساری بات لانا ضروری ہے؟ یا اس کے بغیر نکاح ہوجائے گا۔ لڑکا اس کو زوجیت میں لانے کے لیے تیار ہے اور رخصتی کرنا چاہتا ہے، ہم سب نے بھی میسج پڑھے بغیر ڈیلیٹ کر دیا، صرف بڑے بھائی نے پڑھا۔ براہِ مہربانی فتوی عنایت کر دیں۔ شکریہ

وضاحت مطلوب ہے کہ: خود بھائی کو کہا جائے کہ وہ دار الافتاء میں حاضر ہو یا رابطہ کرکے اپنا حلفی بیان دے۔

جواب وضاحت:  شوہر نے دار الافتاء رابطہ کیا اور مذکورہ صورتحال کی تصدیق کی اور کہا کہ میں نے علماء سے پوچھا ہے تو انہوں نے کہا ہے کہ اب دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا اور آئندہ صرف ایک طلاق کا حق ہوگا۔ اس لیے میں آئندہ اس لڑکی کے زیادتی نہیں کرنا چاہتا، پہلے بھی اپنے رشتہ داروں کے کہنے کی وجہ سے نکاح کرنے پر مجبور تھا۔ بالآخر دوسری دفعہ نکاح کے بعد میں نے طلاق کی نیت سے بیوی اور دوسرے رشتہ داروں کو یہ میسج کیا تھا:

’’السلام علیکم سب خیریت سے ہوں گے۔ میں نے بہت سمجھ کے فیصلہ کیا ہے۔ میرے ساتھ 2 دفعہ زبردستی کی گئی ہے۔ میں اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ اس لڑکی کی زندگی بھی نہیں خراب کرسکتا، اسی لیے میں اس کو آزاد کرنا چاہتا ہوں۔ میں اپنے اللہ کو حاضر ناظر جان کر اور اپنے پورے ہوش وحواس میں اس کو آزاد کرتا ہوں اور اس کو اللہ کو حاضر ناظر جان کر میں ****ولد **** ****، ****کی بیٹی کو طلاق دیتا ہوں، پورے ہوش وحواس میں طلاق دیتا ہوں، اپنے ہوش وحواس میں طلاق دیتا ہوں۔ آج سے وہ میری طرف سے آزاد ہے اور میں اپنی زندگی سے تنگ آکر اپنے اللہ کے پاس جا رہا ہوں، ہوسکے تو مجھے معاف کردینا۔ اللہ حافظ۔‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دوسری دفعہ نکاح کرنے کے بعد چونکہ شوہر نے اپنی بیوی کو طلاق کی نیت سے مذکورہ میسج کیا تھا اس لیے اس سے ایک بائنہ طلاق واقع ہوچکی ہے اور نکاح ختم ہوچکا ہے لہٰذا اب اگر دوبارہ یہ رشتہ قائم کرنا چاہتے ہیں  تو نیا نکاح کرنا ضروری ہے جس میں مہر بھی مقرر ہوگا اور گواہ بھی ہوں گے۔اور لڑکی کو اس بات کا علم ہونا بھی ضروری ہے کہ پہلا نکاح ختم ہوچکا ہے، لہٰذا نیا نکاح کرنے سے پہلے یا نیا نکاح کرنے بعد رخصتی سے پہلے بیوی کو سابقہ نکاح کا حال بتا کر نئے نکاح پر اس کی اجازت اور رضامندی لینا ضروری ہے نہیں تو نکاح منعقد نہ ہوگا۔

نوٹ: شوہر چونکہ اس سے پہلے بھی ایک طلاق دے چکا ہے اس لیے دوبارہ نکاح کرنے کے بعد شوہر کو صرف ایک طلاق کا حق حاصل ہوگا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں دوسری دفعہ نکاح کرنے کے بعد شوہر نے طلاق کی نیت جو میسج کیا تھا اس میں طلاق کا جملہ اگرچہ تین دفعہ مذکور ہے لیکن چونکہ ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی تھی  اور رخصتی سے پہلے اگر ایک سے زائدہ مرتبہ الگ الگ جملے سے طلاق دی جائے تو بیوی پہلے جملے سے ہی بائنہ ہوجاتی ہے اور عدت نہ ہونے کی وجہ سے مزید طلاقیں واقع نہیں ہوتیں۔ اس لیے میسج میں مذکور طلاق کے پہلے جملے سے ایک بائنہ طلاق واقع ہوگئی، اس کے بعد محل نہ پائے جانے کہ وجہ سے مزید طلاق واقع نہیں ہوئی۔ نیز طلاق واقع ہونے کے لیے بیوی کو علم ہونا ضروری نہیں لہٰذا اگر بیوی نے طلاق کا مذکورہ میسج نہیں بھی پڑھا، پھر بھی طلاق واقع ہوچکی ہے۔  اس کے بعد نیا نکاح کرنے کے لیے بیوی کو طلاق کا علم ہونا اس لیے ضروری ہے کہ بیوی سمجھے گی کہ یہ نیا نکاح پہلے نکاح کی ہی تاکید کے لیے ہے اور اسی پر اس کی رضامندی ہوگی حالانکہ نیا نکاح پہلے نکاح کی تاکید نہیں ہوگا بلکہ پہلا نکاح تو ختم ہوچکا ہے۔ اس لیے لڑکی کو صورتحال سے آگاہ کرکے اجازت لی جائے اور پھر نکاح کیا جائے۔ اگر جازت لیے بغیر نکاح کردیا تو وہ عقد فضولی ہونے کی وجہ سے لڑکی کی اجازت پر موقوف رہے۔

رد المحتار (442/4) میں ہے:

وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا لا

در مختار مع رد المحتار (4/499) میں ہے:

باب طلاق غير المدخول بها ……… (وإن فرق) بوصف أو خبر أو جمل بعطف أو غيره (بانت بالأولى) لا إلى عدة (و) لذا (لم تقع الثانية)

قوله: (وإن فرق بوصف) نحو أنت طالق واحدة وواحدة وواحدة، أو خبر نحو: أنت طالق طالق طالق، أو أجمل نحو: أنت طالق أنت طالق أنت طالق ح، ومثله في شرح الملتقى….. قوله: (لم تقع الثانية) المراد بها ما بعد الأولى، فيشمل الثالثة

در مختار مع رد المحتار (4/214) میں ہے:

(ونكاح عبد وأمة بغير إذن السيد موقوف) على الإجازة (كنكاح الفضولي) سيجيء في البيوع توقف عقوده كلها إن لها مجيز حالة العقد وإلا تبطل (ولابن العم أن يزوج بنت عمه الصغيرة) فلو كبيرة فلا بد من الاستئذان، حتى لو تزوجها بلا استئذان فسكتت أو أفصحت بالرضا لا يجوز عندهما. وقال أبو يوسف: يجوز

قوله: (كنكاح الفضولي) أي الذي باشره مع آخر أصيل أو ولي أو وكيل أو فضولي….. ………. قوله: (لا يجوز عندهما) لأنه تولى طرفي النكاح، وهو فضولي من جانبها فلم يتوقف عندهما بل بطل كما مر …….. وهذا إذا زوجها لنفسه كما قلنا أما لو زوجها لغيره بلا استئذان سابق، فسكتت بكرا أو أفصحت بالرضا ثيبا يكون إجازة لأنه انعقد موقوفا لكونه لم يتول الطرفين بنفسه، بل باشر العقد مع غيره من أصيل، أو ولي أو وكيل أو فضولي فتكون المسألة حينئذ من فروع قوله كنكاح فضولي

امداد الفتاویٰ جدید (5/253) میں ہے:

’’سوال(۱۲۷۰) : قدیم ۲/۴۲۴-  ایک شخص نے کسی فعل پر طلاق کو اس طرح معلق کیا کہ اگر فلاں کام کروں تو جس عورت سے نکاح کروں وہ مطلقہ ہے اس کے بعد وہ کام کیا پھر نکاح تو ظاہر ہے کہ وہ عورت مطلقہ ہوگئی؛ لیکن قاضی نے ایجاب و قبول دوبارہ کرایا پس یہ کہا جا سکتا ہے کہ اول ایجاب و قبول کے بعد طلاق واقع ہو گیا اور ثانی ایجاب و قبول سے پھر دوبارہ نکاح منعقد ہوگیا اگرچہ طرفین نے تجدید نکاح کا ارادہ نہیں کیا؛ البتہ پہلی مرتبہ چونکہ قاضی وکیل تھا اس لئے وہ وکالت ختم ہوگئی اب دوبارہ ایجاب فضولی کا سمجھا جائے گا؛ اس لئے اجازت مرأۃ یاولی مرأۃ پرموقوف رہے گاپس ولی کاعورت کو برضامندی رخصت کرنا یا کہ عورت کی برضا تمکین و طی کو اجازت سمجھا جائے گا یا نہیں یا کہ عورت سے یہ کہا کہ تم راضی ہو ان سے اس نے کہدیا ہاں تو یہ رضا شمار کیا جاسکتا ہے یا نہیں وجہ شبہ یہ ہے کہ اجازت و رضامندی کے لئے خبر نکاح شرط ہے اور ولی یا عورت کو خبر نکاح ثانی نہیں ہے بلکہ اس کو فضول سمجھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ نکاح ہماری اجازت سے ہوا ہے پس یہ عدم علم تجدید نکاح میں رضامندی کے لئے مضر ہے یا نہیں یا کہ یہ کافی ہے کہ نفس نکاح کا اُن کو علم ہے اگرچہ تجدید نکاح کاعلم نہیں ؟

الجواب: مکرر ایجاب و قبول سے مقصود تاکید ہے نہ کہ تجدید؛ لہٰذا اس کو عقد ثانی نہ کہیں گے اوررضامرأۃ یا ولی کی عقد اول ہی کے خیال سے ہے اُس کو عقد ثانی پر رضانہ کہا جائے گا۔‘‘

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد

رد المحتار مع در مختار (463/7) میں ہے:

والأصل أن التناقض (لا) يمنع دعوى ما يخفى سببه ك (النسب والطلاق…

قوله: (والطلاق) ……. لاستقلال الزوج بذلك بدون علمها.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved