• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میسج کے ذریعے تحریری طلاق دینے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دیں پھر اس نے رجوع کرلیا، لیکن کچھ عرصہ کے بعد اس نے واٹس ایپ پر بیوی کے بھائی کو تین طلاقیں لکھ کر بھیجیں، میسج کے الفاظ یہ تھے

"I just want to tell u I’m giving divorce to you, **** u are divorce, ***** u are divorce”

(میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں، ****تمہیں طلاق، *****تمہیں طلاق)

لڑکی کے بھائی نے اپنی بہن کو بتایا کہ آپ کے شوہر نے آپ کو تین طلاقیں دی ہیں، اس کے بعد شوہر نے فون کیا اور کہا کہ مجھے پتا نہیں چلا میں نے کب طلاقیں بھیجیں، میں نشے میں تھا، اس نے ویڈیو بنا کر بھیجی جس میں اس نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ مجھے نہیں پتہ چلا میں نے تین طلاقیں کب دیں۔ شوہر پچھلے دو سال سے نشہ کرتا تھا۔ مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟

نوٹ: دارالافتاء کی طرف سے رابطہ کیا گیا تو لڑکی نے سوال کی تصدیق کی اور بتایا کہ پہلی دو طلاقوں کے الفاظ یہ تھے ’’میں تمہیں طلاق دے دوں گا، میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں‘‘ اس کے پندرہ دن بعد صلح ہو گئی تھی۔

شوہر کا حلفی بیان:

میں ***ولد ****اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر حلفا بیان کرتا ہوں  کہ میں نے اپنی بیوی کو کبھی طلاق نہیں دی، نہ اس کے سامنے اور نہ اس سے کال پر بات کرتے ہوئے، میں نے اس کے والد اور بھائیوں کو کئی دفعہ کال کی اور میسج کیے کہ آخر ایک دفعہ میری بیوی سے بات کروائی جائے تاکہ مجھے اصل معاملے کا پتہ چل سکے لیکن نہ ہی انہوں نے میری بات کروائی اور نہ ہی خود بات کی، میرے نمبر بھی بلاک کر دیے تو میں نے اس کے بھائی کو میسج کیا تاکہ وہ یہ میسج دیکھ کر شاید مجھ سے بات کر لے، میری طلاق دینے کی نیت نہیں تھی کیونکہ ہمارے تین بچے ہیں، میرے سسرال والوں نے ہماری چھوٹی سی رنجش کو بہت بڑا مسئلہ بنا دیا ہے۔ اس سے پہلے بھی میں نے کبھی طلاق نہیں دی، میری بیوی جو طلاق کے الفاظ بولنے کا بتا رہی ہے وہ میں نے کبھی نہیں کہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں طلاق کے اس میسج سے کہ

"I just want to tell u I’m giving divorce to you, **** u are divorce, ***** u are divorce”

(میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں، ****تمہیں طلاق، *****تمہیں طلاق)

چونکہ شوہر کی طلاق کی نیت نہیں تھی اس لیے اس میسج  سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، تاہم طلاق کی نیت نہ ہونے پر شوہر کو بیوی کے سامنے قسم دینی ہو گی، اگر شوہر قسم نہیں دیتا تو بیوی اپنے حق میں تین طلاق سمجھے گی۔اور ان الفاظ سے کہ ’’میں تمہیں طلاق دے دوں گا، میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں‘‘  بیوی کے حق میں ایک رجعی طلاق واقع ہو گئی تھی، پھر چونکہ عدت کے اندر شوہر نے رجوع کر لیا تھا اس لیے نکاح باقی رہا۔

توجیہ:  ہماری تحقیق میں میسج کی تحریر کتابت غیر مرسومہ ہے، اور کتابت غیر مرسومہ سے شوہرکی طلاق کی نیت ہو تو طلاق واقع ہوتی ہے، نیت کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اور طلاق کے جو الفاظ بیوی نے بیان کیے ہیں ان کے بارے میں شوہر اگرچہ یہ کہتا ہے کہ میں نے یہ الفاظ کہ ’’میں تمہیں طلاق دے دوں گا، میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں‘‘ نہیں کہے لیکن چونکہ بیوی نے یہ الفاظ خود سنے ہیں، اور طلاق کے معاملے میں بیوی کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے، لہذا بیوی کے حق میں ان الفاظ سے ایک رجعی طلاق واقع ہو گئی، بیوی کے بیان کے مطابق اگرچہ طلاق کے الفاظ دو دفعہ کہے گئے لیکن چونکہ ’’میں تمہیں طلاق دے دوں گا‘‘ مستقبل کا جملہ ہے اور مستقبل کے الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوتی، اس لیے اس جملے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اور ’’ میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں‘‘ حال کا جملہ ہے اور حال کے الفاظ سے طلاق واقع ہو جاتی ہے، لہذا ان الفاظ سے صرف ایک طلاق واقع ہوئی ہے۔

عالمگیری (1/384) میں ہے:

في المحيط لو قال بالعربية أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا.

عالمگیری (1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

فتاوی شامی (449/4) میں ہے:

والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه.

فتاوی شامی (442/4) میں ہے:

وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق یقع وإلا لا.

ہدایہ (/2391) میں ہے:

وفي كل موضع يصدق الزوج على نفي النية إنما يصدق مع اليمين لأنه أمين في الإخبار عما في ضميره والقول قول الأمين مع اليمين.

فتاوی عثمانی (338/2) میں ہے:

سوال:۔ ’’آج میں آپ کی لڑکی کو طلاق دے رہا ہوں ، میرے اس کو طلاق دینے کے وجوہات یہ ہیں ، اس نے میری بے عزتی دو لڑکے گوجرسالا اور بہنوئی کے پاس سے کرائی ، اس بے عزتی کی وجہ  صرف اس کی بدمعاشی تھی ، کیونکہ اس نے ان کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھے تھے ، میں نے اس کو اس بات سے منع کیا ، مگر اس نے میری پرواہ تک نہیں کی ، آپ کی لڑکی کے کئی قسم کے فوٹو بھی اس لڑکے کے پاس ہیں جو کہ اس نے مجھے دکھائے بھی تھے ، مگر میں بات برداشت نہ کرسکا،اس لئے میں نے اس کو طلاق طلاق کا مصمم ارادہ کرلیا ہے ۔‘‘ کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوگئی ؟

جواب:۔ مندرجہ بالا تحریر سے لکھنے والے کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوئی ، جس کا حکم یہ ہے کہ شوہر عدت کے دوران رجوع کرسکتا ہے، (۱)اور عدت کے بعد باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے ،(۲) مذکورہ تحریر میں اگر چہ لفظ’’طلاق‘‘تین مرتبہ استعمال ہوا ہے ،لیکن آخری دو الفاظ طلاق دینے کے لئے نہیں طلاق کی وجہ بیان کرنے کے لئے ہیں ، اس سے الگ طلاق واقع نہیں ہوئی ۔

الجواب صحیح واللہ سبحانہ اعلم

بندہ محمد شفیع عفا اللہ عنہ،  احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved