• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اگر شوہر کسی کے تلقین کرنے پر یہ الفاظ کہے کہ ’’میری بیوی مجھ پر ثلاثہ طلاق سے طلاق ہے ‘‘  حالانکہ وہ ’’ثلاثہ‘‘ کا معنی نہ جانتا ہو تو تین طلاقیں واقع ہوں گی یا ایک؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے محلے کے ایک حافظ صاحب افغانستان میں جہاد کی نیت سے جنگ میں شرکت کرتے ہیں، پچھلے ہفتے وہ  افغانستان گئے تھے، وہاں افغان فورسز نے طالب ہونے کے شک میں انہیں پکڑ لیا، حافظ صاحب نے انکار کیا کہ میں طالب نہیں ہوں اور میں نے جنگ میں حصہ نہیں لیا، افغان فوجی نے کہا کہ اگر آپ اپنے قول میں صادق ہیں تو میرے ساتھ یہ الفاظ دوہرائیں کہ ’’پر ما باندی دی زما خذہ پہ ثلاثہ طلاق طلاقہ وی کہ بہ زہ یا دا افغانستان جنگ تہ تللی او یا بہ دا افغان جنگ ثخہ را روان یم ‘‘ (میرے اوپر میری بیوی ثلاثہ طلاق سے مطلقہ ہے اگر میں نے افغان جنگ میں حصہ لیا ہو یا ابھی افغان جنگ سے آ رہا ہوں) تو حافظ صاحب نے ایک مرتبہ ہاں میں ہاں ملا کر قبول کیا، لیکن فوجی کے اصرار پر دوسری دفعہ حافظ صاحب نے سارے الفاظ دوہرا دیے، حالانکہ وہ جنگ میں حصہ لینے کے بعد واپس آ رہے تھے، یہ الفاظ سن کر فوجی نے انہیں رہا کر دیا،  صورت حال یہ ہے کہ حافظ صاحب کی شادی نہیں ہوئی ہے بلکہ منگنی ہوئی ہے اور ہمارے علاقے میں منگنی کے دوران باقاعدہ نکاح بندی ہوتی ہے، یعنی حافظ صاحب کا نکاح ہو چکا ہے، کچھ دن کے بعد شادی کا پروگرام ہے، ہمارے علاقے کے کچھ علماء کہتے ہیں کہ ایک طلاق ہوئی ہے، آپ راہنمائی فرمائیں کہ مذکورہ صورت میں کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟

نوٹ: حافظ صاحب کا بیان ہے کہ مجھے اس وقت لفظ ’’ثلاثہ‘‘ کا معنی معلوم نہیں تھا صرف اتنا علم تھا کہ ان الفاظ سے میری بیوی کو طلاق ہو جائے گی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ حافظ صاحب اگر واقعتا ًلفظ ’’ثلاثہ‘‘ کا معنی نہیں جانتا تھا تو اس کے یہ الفاظ بولنے سے کہ ’’پر ما باندی دی زما خذہ پہ ثلاثہ طلاق طلاقہ وی کہ بہ زہ یا دا افغانستان جنگ تہ تللی او یا بہ دا افغان جنگ ثخہ را روان یم‘‘ (میرے اوپر میری بیوی ثلاثہ طلاق سے مطلقہ ہے اگر میں نے افغان جنگ میں حصہ لیا ہو یا ابھی افغان جنگ سے آ رہا ہوں)  اس کی بیوی پر ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو گیا ہے، لہذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ  نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔

توجیہ:حافظ صاحب كو مذکورہ الفاظ تلقین کیے گئے اور وہ صرف لفظ ’’طلاق ‘‘ کا معنی جانتے تھے، لفظ ’’ثلاثہ‘‘ کا معنی نہیں جانتے تھے اس لیے  لفظ ’’طلاق‘‘ سے صرف ایک طلاق واقع ہوئی ہے اور لفظ ’’ثلاثہ‘‘ لغو ہو گیا ہے، پھرچونکہ یہ طلاق رخصتی سے پہلے واقع ہوئی ہے اس لیے یہ بائنہ طلاق ہے۔

فتح القدیر (4/4) میں ہے:

ولا بد من القصد بالخطاب بلفظ الطلاق عالما بمعناه أو بالنسبة إلى الغائبة كما يفيده فروع: هو أنه لو كرر مسائل الطلاق بحضرة زوجته ويقول: أنت طالق ولا ينوي طلاقا لا تطلق، وفي متعلم يكتب ناقلا من كتاب رجل قال: ثم وقف وكتب امرأتي طالق وكلما كتب قرن الكتابة بالتلفظ بقصد الحكاية لا يقع عليه.ولو قال لقوم تعلمت ذكرا بالفارسية فقولوه معى فقال: زن من بسه طلاق فقالوه لم يحكم عليهم بالحرمة، وكذا لو لم يعتقدوه ذكرا واعتقدوه شيئا آخر.

ردالمحتار (448/4) میں ہے:

مطلب في قول البحر: إن الصريح يحتاج في وقوعه ديانة إلى النية

(قوله أو لم ينو شيئا) لما مر أن الصريح لا يحتاج إلى النية، ولكن لا بد في وقوعه قضاء وديانة من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها عالما بمعناه ولم يصرفه إلى ما يحتمله كما أفاده في الفتح، وحققه في النهر، احترازا عما لو كرر مسائل الطلاق بحضرتها، أو كتب ناقلا من كتاب امرأتي طالق مع التلفظ، أو حكى يمين غيره فإنه لا يقع أصلا ما لم يقصد زوجته، وعما لو لقنته لفظ الطلاق فتلفظ به غير عالم بمعناه فلا يقع أصلا على ما أفتى به مشايخ أوزجند صيانة عن التلبيس وغيرهم عن الوقوع قضاء فقط.

قال الرافعی: قوله: (و غيرهم من الوقوع الخ) نسخة الخط:. و غيرهم على الوقوع الخ.

درمختار (5/42) میں ہے:

(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع)

درمختار (4/580)میں ہے:

وشرط صحته كون الشرط معدوما على خطر الوجود؛ فالمحقق كإن كان السماء فوقنا تنجيز.

خیر الفتاوی (5/92) میں ہے:

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کہ زید جوکہ ناخواندہ ہے اس کو بکرنے سورۃ ملک پڑھانا شروع کیا، چند دنوں کے بعد دو آدمیوں کے روبرو اس سے یہ الفاظ کہلوائے ’’طلقت امراتى ستان ثلاثا‘‘ تعلیم ایسے لب و لہجہ کی تھی کہ پڑھنے والے کو یہ آیت سورۃ ملک کی معلوم ہوتی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آج کا سبق یہی ہے، جب کئی مرتبہ اس نے اس کو دوہرایا تو بکر نے خود بھی اور اس کے پاس بیٹھے ہوئے دو آدمیوں نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا کہ تو نے اپنی عورت ستان کو طلاق دے دی  ہے، زید مارے تعجب کے حیران ہو گیا چنانچہ یہی مقدمہ بنا کر منکوحہ کے بھائی نے ایک مولوی کے پاس دائر کردیا، مولوی صاحب نے اس کو اور انہی دو گواہوں کو (جن کا اوپر ذکر ہوا) بلوا کر ان کے بیانات لئے اور طلاق مغلظہ کا فتوی بشکل فیصلہ سنا دیا۔ فتوی کے الفاظ یہ ہیں ’’اس میں شک نہیں کہ مسمی زید ان عربی الفاظ کا معنیٰ نہیں سمجھتا تھا، اور اس سے یہ الفاظ دھوکا دے کر کہلوائے گئے، مگر اس کی عورت ستان مطلقہ مغلظہ ہو گئی ہے اور اس کے حق میں نکاح کے ساتھ بھی نہیں آ سکتی کیونکہ یہ الفاظ طلاق صریح کے ہیں اور طلق صریح نیت پر موقوف نہیں ہے ۔

اب قابل دریافت امر یہ ہے کہ جب اس جملہ کو قراءت تصور کرکے پڑھ رہا ہے اور معنی سے بھی جاہل ہے تو اندریں حالات کیا مولوی صاحب کا مذکورہ فتوٰی درست ہوکر زید کی عورت کو مطلقہ مغلظہ کردے گیا یا اندریں حالات طلاق واقع نہ ہوگی؟

الجواب:

مولوی صاحب کا فتوی دربارہ وقوع طلاق غلط ہے اور ایسا مولوی جو اس قسم کی فیصلہ سازیاں خلاف شرع سرانجام دیتا ہے قابل اعتماد بھی نہیں ہے بلکہ قابل تعزیر بھی ہے، فتوی مذکور اس لئے غلط ہے کہ طلاق صریح اگرچہ محتاج نیت نہیں ہے اور اس میں بلا نیت وقوع طلاق ہو جاتا ہے، عامدا ہو یا خطاء لیکن وقوع طلاق کے لیے یہ شرط لازمی ہے کہ اضافت طلاق عورت کی طرف بالقصد ہو اور معنی کا بھی علم ہو ورنہ لازم آئے گا کہ ایک طالب علم جو فقہ کی کتاب سے ’’امراتی طالق‘‘ کا جملہ پڑھے یا نقل  کرے اس کی بیوی  مطلقہ ہو جائے۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند (9/191) میں ہے:

سوال:ایک شخص امی محض نے غضب میں اور مذاکرہ طلاق میں اپنی بیوی کو کہا کہ تجھ کو ثلاثہ ایک طلاق دیا اور اب وہ شخص منکر طلاق ثلاث اور مقر طلاق واحد ہے، اور کہتا ہے کہ میں معنی ثلاثہ کے نہیں جانتا، میری نیت ایک طلاق کی تھی، اس صورت میں اس کی زوجہ پر طلاق ثلاثہ واقع ہوگی یا ایک طلاق؟

 الجواب:اس صورت میں تین طلاق اس کی زوجہ پر واقع ہو گئی، اور طلاق صریح میں نیت اور فہم معنی کی ضرورت نہیں ہے۔

(فيه أن الصريح لفظ الطلاق لا لفظ الثلاثة لمن لا يعرف العربية) (6) محمد شفیع عفی عنہ۔

 (6) مفتی شفیع صاحب مدظلہ کا منشا یہ ہے کہ لفظ ثلاثہ کا جب معنی نہیں جانتا تھا تو ایک طلاق ہوئی، صراحت کی بحث لفظ طلاق میں تو مناسب ہے، لفظ ثلاثہ میں یہ بحث نہیں ہوسکتی، پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ثلاثہ کے ساتھ ایک طلاق کا لفظ کہا لہذا ایک ہی واقع ہونی چاہیے۔ واللہ اعلم (ظفیر)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved