• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’اگر یہ راز کسی اور کے سامنے ظاہر کیے   تو تم میری طرف سے آزاد ہو‘‘

استفتاء

میری ہمشیرہ حمیرا بنت خالد محمود کی شادی اسد بن عقیل کے ساتھ تقریباً ایک سال قبل ہوئی تھی۔ مگر شادی کے ابتدائی ایام میں ہی شوہر کی طرف سے بیوی کو زدوکوب کرنے اور مارنے پیٹنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ لیکن  پانچ چھ ماہ گزرنے کے باوجود حمیرا نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور شوہر کی بدتمیزی کے بارے میں ہمیں آگاہ نہیں کیا۔ جب حمیرا کی برداشت ختم ہوگئی اور مزید صبر مشکل ہوگیا تو پھر حمیرا نے شوہر کی زیادتی کے بارے میں اپنے والد صاحب کو آگاہ کیا۔ جب والد صاحب کو ان باتوں کا علم ہوا تو وہ مسلسل ہمارے بہنوئی اسد اور ان کے والد عقیل صاحب سے اس بارے میں بات چیت کرتے رہے لیکن فائدہ اور بہتری نظر نہ آئی اور اس کے حمیرا پر ہاتھ اُٹھانے کی وجہ سے دونوں کے درمیان نااتفاقی بڑھتی ہی چلی گئی۔

  1. اب بروز جمعرات بتاریخ 20مئی 2021ء کو صبح کے وقت اسد نے اپنے سُسر خالد محمود صاحب کو فون کرکے کہا کہ اب میں مزید حمیرا کے ساتھ نہیں رہ سکتا لہٰذا آپ لاہور آکر اپنی امانت (صاحبزادی) کو لے جائیں یا پھر میں اس کو ٹکٹ کروا کر کراچی روانہ کر دیتا ہوں اور کاغذات پر دستخط کرکے آپ کو بعد میں بھجوا دونگا، بہنوئی کی اس بات پر گواہ بھی ہیں اوراگر بہنوئی اس بات سے انکار کرتے ہیں تو والد صاحب حلف اُٹھانے کو بھی تیار ہیں، اسی دن بروز جمعرات عشاء کی نماز کے بعد اسد اور حمیرا کے درمیان لیپ ٹاپ پر جھگڑا ہوا۔ اسد نے حمیرا سے اپنا لیپ ٹاپ مانگا اور حمیرا سے کہا کہ ’’میری طرف سے تم فارغ ہو‘‘ (اور اس واقعہ پر شاہدین بھی موجود ہیں) اسد کے یہ الفاظ کہنے پر حمیرا نے جواباً اسد سے کہا کہ ان الفاظ سے طلاق واقع ہوگئی ہے ، اس نے کہا کہ نہیں ہوئی، حمیرا نے پھر کہا طلاق ہوگئی ہے تو پھر اس نے کہا کہ اچھا ہوگئی ہے نا ، تو اب میرا لیپ ٹاپ مجھے دو۔
  2. اسد کی کچھ خفیہ باتیں اور غیر مناسب معاملات حمیرا پر عیاں ہوگئے جس پر اسد نے حمیرا سے کہا کہ ’’اگر یہ راز کسی اور کے سامنے ظاہر کیے تو تم میری طرف سے آزاد ہو ، جہاں مرضی جس کے پاس  مرضی جاو‘‘  اور حمیرا نے یہ مخفی باتیں اپنے بھائی اور بہن کے سامنے  ظاہر کر دی ہیں۔ نیز انہی  آخر کے جھگڑوں کے درمیان حمیرا کو کئی بار طلاق کی دھمکی بھی دی تھی۔

ازراہ ِ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت  فرمائیں کہ  مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں مذاکرہ طلاق اور غصہ کی حالت میں کنائی الفاظ کہ  ’’میری طرف سے تم فارغ ہو ‘‘ ادا کرنے سے حمیرا کو طلاق واقع ہوئی یا نہیں اوراگر طلاقیں واقع ہوئی ہیں تو  یہ طلاقیں رجعی ہوں گی یا بائنہ؟نیز کیا ہم اپنی بہن کا نکاح کہیں اور کر سکتے ہیں؟ جزاکم اللہ احسن الجزاء

وضاحت مطلوب ہے کہ: یہ جملہ کہ  ’’میری طرف سے تم فارغ ہو‘‘  کب کہا تھا شرط والی بات سے پہلے یا بعد میں؟ نیز بیوی نے شوہر کی مخفی باتیں اپنے بہن بھائیوں کو کب بتائیں؟

جواب وضاحت: تقریباً دو تین ماہ پہلے شرط والی بات کہی تھی  اور 19مئی بروز بدھ کو اسد کے دوست کو سب باتیں بتادیں تھیں اور 20مئی بروز جمعرات کو یہ کہا تھا کہ  ’’میری طرف سے تم فارغ ہو۔‘‘  اس کے بعد بہن نے  بھائیوں کو بھی سب باتیں بتا دیں۔

نوٹ: بندہ (وسیم طفیل) کی حمیرا بنت خالد سے فون پر بات ہوئی لہٰذا حمیرا بنت خالد اس بیان سے متفق ہے۔

والسلام: محمد عمیر

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوچکی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوچکا ہے لہٰذا میاں بیوی اگر دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں تو نیا نکاح کر کے رہ سکتے ہیں اور اگر بیوی شوہر کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو عدت گزرنے کے بعد جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر نے دو تین ماہ پہلے جب  بیوی کو یہ کہا کہ  ’’اگر یہ راز کسی اور کے سامنے ظاہر کیے تو  تم میری طرف سے آزاد ہو، جہاں مرضی جس کے پاس مرضی جاؤ‘‘ تو اس جملے سے راز ظاہر کرنے پر ایک بائنہ طلاق معلق ہوگئی، پھر جب بیوی نے یہ راز  اسد کے دوست پر ظاہر کیے تو شرط پائے جانے کی وجہ سے ایک بائنہ طلاق واقع ہوگئی۔ کیونکہ یہ جملہ کنایات  طلاق کی تیسری قسم سے ہے، جس سے غصہ میں نیت کے بغیر بھی بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوجاتی ہے، اور اس کے بعد شوہر کے اس جملے سے ’’میری طرف سے تم فارغ ہو‘‘ لا یلحق البائن البائن کے تحت مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

درمختار مع رد المحتار 4/521) میں ہے:

ونحو اعتدي و استبرئی رحمک انت واحدة  انت حرة اختاري امرک بيدک سرحتک فارقتک لا يحتمل السب و الرد

وفي الغضب توقف الاولان ان نوي وقع و الا لا

قوله: (توقف الاولان) أي ما يصلح ردا و جوابا وما يصلح سبا و جوابا و لا يتوقف ما يتعين للجواب بیان ذالک أن حالة الغضب تصلح للردّ و التبعيد و للسبّ و الشتم کما تصلح للطلاق، و ألفاظ الأولين يحتملان ذلک أيضاً، فصار الحال فى نفسه محتملاً للطلاق و غيره، فإذا عني به غيره فقد نوي ما يحتمله کلامه و لا يکذبه الظاهر فيصدق فى القضاء بخلاف ألفاظ الأخير، أى ما يتعين للجواب لأنها وإن احتملت الطلاق و غيره أيضا لکنها لما زال منها احتمال الرد و التبعيد و السب و الشتم الذين احتملتهما حال الغضب تعينت الحال علي إرادة الطلاق فترجح جانب الطلاق فى کلامه ظاهرا، فلا يصدق فى الصرف عن الظاهر، فلذا وقع بها قضاء بلاتوقف علي النية کما فى صريح الطلاق اذا نوي به الطلاق عن وثاق

درمختار(5/42) میں ہے:

و ينکح مبانته بما دون الثلاث في العده و بعدها بالاجماع

درمختار (4/531) میں ہے:

لا يلحق البائن البائن

امداد الاحکام (2/610) ميں ہے:

اور چوتھا جملہ یہ ہے کہ وہ میری طرف سے آزاد ہے اس کنایہ کا حکم درمختار میں صریح موجود ہے کہ غضب و مذاکرہ میں بدون نیت بھی طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved