• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کے بیوی کے ساتھ غیرفطری عمل کرنے کی بنیاد پر تنسیخ نکاح کا حکم

استفتاء

محترم مفتی صاحب مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات قرآن و سنت کی روشنی میں عنایت فرمادیں۔  اب سے تین سال قبل دونوں خاندانوں اور لڑکا لڑ کی کی رضامندی سے بریرہ کی شادی سمیر سے ہوئی، ایک سال بعد بیٹی پیدا ہوئی ،دوسرے سال بیٹا پیدا ہوا، شوہر اپنی بیوی پر غیر مردوں سے تعلقات کا الزام لگاتا رہا مگر بیوی نے جب اس بات کو انتہائی سنجیدہ انداز میں لیا تو شوہر نے جواب دیا کہ میں تو مذاق کر رہا تھا، اس عرصہ میں شوہر اپنی بیوی کے ساتھ غیرفطری عمل (پاخانے کے مقام میں جماع) کا کئی مرتبہ مرتکب ہوا، شادی سے قبل یہ طے ہوا تھا کہ میاں بیوی دونوں ایک ملک ایک شہر اور ایک گھر میں رہیں گے جبکہ شوہر شادی سے پہلے اور بعد میں جدہ میں رہا، سال یا نو ماہ بعد ایک آدھ چکر لگاتا رہا، بیوی بھی چھ ماہ کے لیے جدہ گئی تھی پھر واپس آ گئی، ان تین سالوں میں  بیوی کئی کئی ماہ اپنی والدہ کے ہاں اور کئی کئی ماہ اپنی ساس کے پاس رہتی رہی، لڑکی کے والدین نے  انتہائی کوشش کی کہ یہ رشتہ بنا رہے، اس کے لیے لڑکے کے والدین اور اس کے دیگر رشتے داروں کے ہمراہ کئی مصالحتی نشستیں ہوتی رہیں اور ان مصالحتی بیٹھکوں  میں سے کسی ایک میں بھی شوہر جدہ سے آکر شریک نہ ہوا مگر لڑکی کے والدین لڑکی کا گھر بسانے کی خاطر سسرال بھجتے رہے، اب سے تقریباً چھے ماہ قبل لڑکی کے والدین نے شوہر کے ماں باپ اور دیگر رشتے داروں کے ہمراہ بیٹھک منعقد کی جس میں ایک عالم دین کو بھی بٹھایا۔ شوہر کے ماں باپ اس بات پر مصر رہے کہ بس لڑکی کو بھیج دیں مگر مولانا صاحب نے ساری صورت حال کا جائز لیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ جب تک محفل میں شوہر نہ آئے تب تک یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ آیا کہ شوہر کو اپنی بیوی کے بسانے میں کوئی دل چسپی ہے یا نہیں؟ جبکہ شوہر کے والدین اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ کرونا کے مسائل کے پیش نظر اور کچھ کاروباری وجوہات کی بنا پر شوہر جدہ سے لاہور نہیں آسکتا، اور شوہر کے والدین نے اصرار کیاکہ جدہ فون کرکے معلوم کر لیں کہ شوہر کو اپنی بیوی سے دل چسپی ہے یا نہیں، چنانچہ مولانا صاحب  نے شوہر سے فون پر جدہ میں رابطہ کیا، ساری گفتگو کے دوران اس نے ایک مرتبہ بھی اپنی بیوی اور بچوں کا تذکرہ یا ان کو بھجوائے جانے کا مطالبہ نہیں کیا، اس ساری صورت حال کے پیش نظر لڑکی کے والدین نے اس کے شوہر سے لڑکی کو طلاق دیکر فارغ کرنے کا مطالبہ کیا جس پر اس کے والدین نے انکار کر دیا، چنانچہ تنگ آکر عدالت میں خلع کی درخواست دیدی گئی، لڑکی کے والدین نے ساری صورتحال سے اپنے وکیل کو آگاہ کیا، وکیل نے لڑکے یعنی شوہر کو تحریر بھجوائی جس میں لکھا تھا کہ لڑکا اگر ہر طرح سے بیوی کے حقوق زوجیت ادا کرنے کے لیے تیار ہو اور سابقہ غلطیوں کو نہ دوہرانے کا وعدہ کرے تو میرے موکل اپنی بیٹی کے خلع کی درخواست سے دستبردار ہو کر اپنی بیٹی کو شوہرکے پاس بھیجنے کے لیے تیار ہیں، مگر عدالت کے کئی مرتبہ پیغامات بھجوانے کے باوجود لڑکا یا اس کے والدین میں سے کوئی بھی عدالت میں جوابدہی کے لیے نہ آیا، جج نے اپنی کاروائی مکمل کرتے ہوئے دو مارچ 2021ء کو خلع کا فیصلہ سنا دیا۔ سوال طلب امر یہ ہے کیا مذکورہ صورت میں خلع درست ہو گیا ہے؟  اور جج کے فیصلے کے بعد تین ماہواریاں گزر جانے پر والدین اپنی بیٹی کی شادی کسی اور جگہ کر سکتے ہیں؟ خلع کے کاغذات ساتھ لف ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ بیوی نے تنسیخ نکاح کی درخواست  میں جو وجوہات ذکر کی ہیں   ان میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ اس کا شوہر اس سے غیرفطری عمل کرتا تھا، عدالت نے باقی وجوہات کے ساتھ ساتھ شوہر کے بیوی کے ساتھ غیرفطری عمل کرنے کی بنیاد پر بیوی کے حق میں خلع کی ڈگری جاری کر دی،  لہذا اگر واقعتا شوہر بیوی سے غیرفطری عمل کرتا تھا تو عدالت کا فیصلہ بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق شمار ہو گا جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو گیا ہے اور بیوی کو آگے نکاح کرنے کی اجازت ہے کیونکہ مذکورہ صورت میں اگرچہ عدالت نے خلع کا طریقہ اختیار کیا ہے اور یکطرفہ خلع شرعا معتبر نہیں ہوتا مگر چونکہ مذکورہ صورت میں فسخ نکاح کی معتبر بنیاد موجود ہے یعنی شوہر کا بیوی کے ساتھ غیرفطری عمل کرنا پایا جا رہا ہے لہذا عدالتی خلع شرعا مؤثر ہے۔

شرح الكبير للدردير مع حاشیۃ الدسوقی (2/345) میں ہے:

(ولها) أي للزوجة (التطليق) على الزوج (بالضرر) وهو ما لا يجوز شرعا كهجرها بلا موجب شرعي وضربها كذلك وسبها وسب أبيها، نحو يا بنت الكلب يا بنت الكافر يا بنت الملعون كما يقع كثيرا من رعاع الناس ويؤدب على ذلك زيادة على التطليق كما هو ظاهر وكوطئها في دبرها…..

 (قوله ولها التطليق بالضرر) أي لها التطليق طلقة واحدة وتكون بائنة كما في عبق 

حیلہ ناجزہ (140) میں ہے:

’’ان كل طلاق اوقعه الحاكم فهو بائن الا طلاق المولى و المعسر و سواء اوقعه الحاكم بالفعل او جماعة المسلمين او امراها به‘‘.انتهى.

فتاوی عثمانی(2/462) میں ہے:

یکطرفہ خلع شرعا کسی کے نزدیک بھی جائز اور معتبر نہیں، تاہم اگر کسی فیصلے میں بنیاد فیصلہ فی الجملہ صحیح ہو ۔۔۔۔۔۔۔ البتہ عدالت نے فسخ کے بجائے خلع کا راستہ اختیار کیا ہو اور خلع کا لفظ استعمال کیا ہو تو ایسی صورت میں خلع کے طور پر تو یکطرفہ فیصلہ درست نہ ہو گا تاہم فسخ نکاح کی شرعی بنیاد پائے جانے کی وجہ سے اس فیصلے کو معتبر قرار دیں گے اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس فیصلے کی بنیاد پر نکاح فسخ ہو گیا ہے اور عورت عدت طلاق گزار کر کسی دوسری جگہ اگر چاہے تو نکاح کر سکتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved