• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عدد طلاق میں میاں بیوی کا اختلاف

استفتاء

شوہر کا بیان:

ہمارے گھر میں آپس میں لڑائی جھگڑا ہو رہا تھا  جس میں میں نے اپنی بیوی کو کہا کہ اگر آپ ان کے مسئلے میں بولو گی تو مسئلہ بنے گا اور میں تمہیں طلاق دے دوں گا تھوڑی دیر بعد یعنی سات آٹھ منٹ بعد میں نے کہہ دیا کہ ’’طلاق طلاق‘‘ دو مرتبہ کہا ہے اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں.

عبدالغیاث:

بیوی کا بیان:

ہمارا گھر کے کسی مسئلے پر لڑائی جھگڑا ہوا جس میں میرے شوہر نے پہلے کہا کہ میں طلاق دے دوں گا اس کے بعد کہا کہ ’’زکیہ طلاق طلاق طلاق‘‘ تین مرتبہ کہا تھا ۔۔کیا طلاق واقع ہو چکی ہے یا نہیں؟

محمد زاہد(بیوی کا بھائی):

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو چکی ہے لہذا بیوی کے لیے شوہر کے ساتھ رہنے کی کوئی گنجائش نہیں۔

توجیہ:طلاق کے معاملے میں بیوی کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے لہذااگر بیوی شوہر سے طلاق کے الفاظ خود سن لے یا  اسے کسی معتبر ذریعے سےشوہر کا طلاق دینا معلوم  ہو جا ئےتو اس کیلئے اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔مذکورہ صورت میں بیوی نے شوہر کو تین  طلاقیں دیتے ہوئے خود سنا ہے  لہذا وہ اپنے حق میں تین طلاقیں شمار کرنے کی پابند ہے۔

نیز مذکورہ صورت میں اگرچہ طلاق کی نسبت بیوی کی طرف صراحۃً نہیں کی گئی  لیکن شوہر چونکہ اس وقت بیوی ہی سے مخاطب تھا لہذا  سیاق و سباق بیوی کی طرف نسبت کو  متعین کرنے کے لیے کافی ہے۔

فتاویٰ ہندیہ(2/411)میں ہے:

’’وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية‘‘

رد المحتار(4/449)میں ہے:

’’والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه.‘‘

رد المحتار(4/444)میں ہے:

’’ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته. اه‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved