• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک طلاق کے بعد اس کی خبر دینے کا حکم

استفتاء

شوہر کا بیان:

مسئلہ کچھ یوں ہے کہ میں پاکستان سے باہر رہتا ہوں اور میری بیوی پاکستان میں رہتی ہے۔ 7 مئی 2021ء کو فون  پر بات کرتے کچھ تلخ کلامی ہوگئی تو میں نے اپنی بیوی کو کہا کہ ’’میں نے تجھے ایک طلاق دی‘‘۔ اُس نے اچانک سے فون بند  کردیا، پتہ نہیں نیٹ ورک کا مسئلہ تھا یا وہ خود کال بند کر رہی  تھی۔  اس کے بعد تین سے چار بار میں نے یا اُس نے کال کی تو میں نے ہر بار کہا کہ ’’میں نے تجھے ایک طلاق دے دی ہے‘‘ پھر میں نے اپنے والد صاحب کو کال کی اور کہا کہ ’’میں  نے اسے ایک طلاق دے دی ہے، اُسے کہو کہ بار بار کال نہ کرے، یہ نہ ہو کہ میں ابھی سارا معاملہ ختم کردوں‘‘۔ مسئلہ یہ ہے کہ مجھے عجیب سے وسوسے آ رہے ہیں جبکہ بار بار کہتے ہوئے میرے دل و دماغ میں یہی تھا کہ میں نے ایک طلاق دی ہے اور میری نيت اور اراده بھی ایک طلاق دینے کا ہی تھا۔ براہِ مہربانی میری رہنمائی کیجیے گا کہ اس میں کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں۔

بیوی کا بیان:

میں اپنے شوہر سے فون پر بات کر رہی تھی، بات کرتے کرتے میں نے غصے سے فون بند کر دیا، اس کے بعد میرے میاں نے مجھے فون کیا، میں ہیلو ہیلو کرتی رہی لیکن صحیح طرح سے آواز نہیں آ رہی تھی تو فون بند ہوگیا، پھر اس کے بعد میں نے اپنے میاں کو فون کیا تو انہوں نے مجھے کہا کہ میں نے تمہیں ایک بار بول دیا ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ نے مجھے کیا بولا ہے اور کیوں بولا ہے اور کس وجہ سے  بولا ہے؟ میں نے کچھ نہیں  سنا۔ مجھے نہیں پتہ انہوں نے طلاق کا لفظ بولا ہے یا نہیں بولا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر نے پہلی مرتبہ یہ کہنے کے بعد کہ ’’میں نے تجھے ایک طلاق دی‘‘ اگر واقعتاً صرف یہ الفاظ بولے ہیں کہ ’’میں نے تجھے ایک طلاق دے دی ہے‘ ‘ تو ان الفاظ سے  ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے جس کا حکم یہ ہے کہ شوہر عدت کے اندر  زبانی یا عملی رجوع کرسکتا ہےلہٰذا اگر عدت کے اندر رجوع کرلیا تو نکاح قائم رہے گا اور اگر عدت کے اندر رجوع نہ کیا تو عدت کے بعد دوبارہ اکٹھے رہنے کے لیے نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔

نوٹ: عدت کے اندر رجوع کرنے یا عدت کے بعد دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کو آئندہ صرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر نے فون پر جب اپنی بیوی سے یہ کہا کہ ’’میں نے تجھے ایک طلاق دی‘‘ تو چونکہ یہ جملہ طلاق کے لیے صریح ہے لہٰذا اس سے ایک رجعی طلاق واقع ہوئی۔ اس کے بعد متعدد فون کالوں میں شوہر نے جو جملہ استعمال کیا کہ ’’میں نے تجھے ایک طلاق دے دی ہے‘‘اس سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ اس جملے سے شوہر مزید طلاق نہیں دے رہا بلکہ سابقہ دی ہوئی طلاق کی ہی خبر دے رہا ہے اور طلاق کی خبر دینے سے مزید طلاق واقع نہیں ہوتی۔

در مختار (4/443) میں ہے:

(صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)….. (يقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح، ….. (واحدة رجعية…..

محیط برہانی (393/4) میں ہے:

وفي «الواقعات»: إذا طلق امرأته ثم قال لها: قد طلقتك أو قال بالفارسية: طلاق دادم ترا دادم ترا طلاق يقع تطليقة ثانية، ولو قال: قد كنت طلقتك أو قال بالفارسية طلاق داده ام ترا لا يقع شيء بالكلام الثاني

در مختار (5/25) میں ہے:

باب الرجعة: ……. (هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) …….. وتصح مع إكراه وهزل ولعب وخطإ (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس

بدائع الصنائع (3/ 283) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد فأما زوال الملك وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved