• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصے میں تین طلاقیں دینے کا حکم اور حلالے کا جائز طریقہ

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

(۱)شوہر نے غصے کی حالت میں اور بیوی کی غیر موجودگی میں گھر کی ایک عورت کو مخاطب کر کے یہ الفاظ کہے کہ”اس کو یعنی میری بیوی کو بتلادینا کہ اس کو میں نے ہر طریقے سے فارغ کردیا ہے   ، اس کو میں نے ایک طلاق دی ،دو طلاق دی ، تین طلاق دی، چار طلاق دی ، پانچ طلاق دی”   یہ گفتگو سننے والے ایک مرد اورتین عورتیں تھیں۔ جس عورت کو طلاق دی گئی ہے وہ تقریبا تین ماہ کے حمل سے بھی تھی، لہذا میاں بیوی بخوشی رجوع کرنا چاہتے ہیں براے مہر بانی اس مسئلے کا حل فرما دیں۔

­(۲)اگر طلاق ہو چکی ہے تو حلالے کی کیا صورت ہے؟ حلالے میں کیا ہم بستری شرط ہے یا نہیں؟ واضح کردیں۔

حافظ عبید اللہ

شوہر کا بیان: بالکل ایسا ہی ہے مجھے اس بات سے اتفاق ہےاور غصے کی حالت میں مجھے معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور کیا کر رہا ہوں لیکن میرا طلاق دینے  کا ارادہ نہیں تھا اورغصے میں میں نے خلاف عادت کوئی کام نہیں کیا (رابطہ کنندہ: محمد سلیمان)۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(۱)مذکو رہ صورت میں اگر چہ شوہر نے غصے کی حالت میں طلاق دی ہے لیکن غصے کی کیفیت ایسی نہیں کہ اسے معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے اور نہ ہی غصے میں اس سے کوئی خلاف عادت کام سرزد  ہوا، غصے کی ایسی حالت میں دی گئی  طلاق واقع ہو جاتی ہے لہذا مذکورہ صورت میں  تین طلاقیں واقع ہو چکی  ہیں، جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو چکی ہے اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

(۲)حلالے کی صورت یہ ہے کہ مذکورہ عورت کا جب بچہ پیدہ ہو جائے اور نفاس سے پاک ہو جائے تو عورت کسی اور مرد سے نکاح کرے جس میں گواہ بھی ہوں اور مہر بھی مقرر ہو اور نکاح کے بعد ہم بستری ہو اس کے بعد اگر یہ دوسرا مرد اس عورت کو طلاق دیدے اور اس کی عدت بھی گذر جائے تو یہ اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ نکاح کر کے رہ سکتی ہے۔

شامی (۴/۴۳۹)میں ہے:

قلت وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها إنه على ثلاثة أقسام أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده وهذا لا إشكال فيه

 الثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله

 الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله اه …………..فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل

ہندیہ(۴۱۱/۲)میں ہے:

وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير

در مختار مع رد المحتار (5/51)میں ہے:

(وكره) التزوج للثاني (تحريما) لحديث «لعن المحلل والمحلل له» (بشرط التحليل) كتزوجتك على أن أحللك (وإن حلت للأول) لصحة النكاح وبطلان الشرط …… وتأويل اللعن إذا شرط الأجر ذكره البزازي

(قوله: وتأويل اللعن إلخ) الأولى أن يقول وقيل تأويل اللعن إلخ كما هو عبارة البزازية ولا سيما وقد ذكره بعد ما مشى عليه المصنف من التأويل المشهور عند علمائنا ليفيد أنه تأويل آخر وأنه ضعيف. قال في الفتح: وهنا قول آخر، وهو أنه مأجور وإن شرط لقصد الإصلاح، وتأويل اللعن عند هؤلاء إذا شرط الأجر على ذلك. اهـ. قلت: واللعن على هذا الحمل أظهر لأنه كأخذ الأجرة على عسب التيس وهو حرام. ويقربه أنه عليه الصلاة والسلام سماه التيس المستعار.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved