• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’اگر تم پشاور گئی تم مجھ پر مطلقہ ہو‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہندہ نے اپنے شوہر سے گپ شپ کے دوران یہ کہا کہ میں چھٹیوں میں پشاور گھومنے جاؤں گی تو شوہر کو بیوی کا گھومنے کے لئے جانا پسند نہیں تھا اس لیے شوہر نے کہا کہ ’’کہ تہ پیخاور تہ لاڑے تہ بہ پما طلاقہ اے‘‘ (اگر تم پشاور گئی  تم مجھ پر مطلقہ ہو)   اس پر ہندہ نے کہا کہ پشاور  میں تو ہمارے رشتہ داربھی ہیں پھر میں کیوں نہیں جاؤں؟ اس پر شوہر نے کہا ٹھیک ہے تم مجھ سے اجازت لے کر جانا، ہندہ اپنے وطن گئی تو وہاں اس کی بیٹی بیمار ہو گئی اور اس کو پشاور جانا پڑا، اس نے اجازت لینے کے لیے اپنے شوہر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی جو کہ اس و قت سعودی عرب میں تھا لیکن رابطہ نہیں ہو سکا، رابطہ نہ ہونے پر ہندہ نے واٹس ایپ پر میسج چھوڑ دیا کہ میں بیٹی کو لے کر علاج کی غرض سے پشاور جا رہی ہوں، بعد میں شوہر نے میسج دیکھا اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا،  کیا ہندہ کے اس طرح اجازت ملنے سے پہلے جانے پر طلاق واقع ہوگئی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کےپشاور جانے کی وجہ سے ایک رجعی طلاق واقع ہو گئی ہے، اور شرط ختم ہو گئی ہے، لہذا آئندہ بیوی کے پشاور جانے سے کوئی طلاق واقع نہ ہو گی۔  اگر شوہر رجوع کرنا چاہے تو عدت کے اندر رجوع کر سکتا ہے، اگر شوہر نے عدت کے اندر رجوع نہ کیا تو عدت گزرنے سے رجعی طلاق بائنہ بن جائے گی  جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو جائے گا اور اکٹھے رہنے کے لیے کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر نا ضروری ہو گا۔

نوٹ:رجوع  یا نیا نکاح کرنے کے بعد شوہر کے پاس آئندہ صرف دو طلاقوں کا حق باقی ہو گا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے   بیوی سے یہ کہا کہ ’’کہ تہ پیخاور تہ لاڑے تہ بہ پما طلاقہ اے‘‘ (اگر تم پشاور گئی  تم مجھ پر مطلقہ ہو)    تو بیوی کے پشاور جانے پر ایک رجعی طلاق معلق ہو گئی، پھراگرچہ شوہر  بیوی کے اجازت لے کر جانے پر راضی ہو گیا لیکن اس سے سابقہ تعلیق (جس میں اجازت کا تذکرہ نہیں تھا وہ) ختم نہیں ہوئی، لہذا مذکورہ صورت

میں جب بیوی پشاور چلی گئی تو ایک رجعی طلاق واقع ہو گئی اور تعلیق ختم ہو گئی۔

عالمگیری (1/420) میں  ہے:

وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.

عالمگیری (415/1) میں ہے:

ألفاظ الشرط إن وإذا وإذما وكل وكلما ومتى ومتى ما ففي هذه الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت اليمين وانتهت لأنها تقتضي العموم والتكرار فبوجود الفعل مرة تم الشرط وانحلت اليمين فلا يتحقق الحنث بعده إلا في كلما.

بدائع الصنائع (283/3) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت.

شامی (4/592) میں ہے:

مطلب فيما لو حذف الفاء من الجواب

(قوله وكذا لو حذف الفاء من الجواب) يعني يقع للحال ما لم ينو التعليق فيدين. وعن أبي يوسف أنه يتعلق حملا لكلامه على الفائدة فتضمر الفاء، والخلاف مبني على جواز حذفها اختيارا، فأجازه أهل الكوفة وعليه فرع أبو يوسف، ومنعه أهل البصرة وعليه تفرع المذهب بحر. وذكر قبله عن المغني أن الأخفش قال: إن ذلك واقع في النثر الفصيح، وإن منه {إن ترك خيرا الوصية للوالدين} [البقرة: ١٨٠] وقال ابن مالك: يجوز في النثر نادرا، ومنه حديث اللقطة «فإن جاء صاحبها وإلا استمتع بها» اهـ

قلت: ينبغي في زماننا إذا قال إن دخلت أنت طالق أن يتعلق قضاء لأن العامة لا يفرقون بين دخول الفاء وعدمه عند قصد التعليق، وقد صار ذلك لغتهم ولا سيما مع وقوعه في الكلام الفصيح كما مر، وكما في قوله تعالى {وإن أطعتموهم إنكم لمشركون} [الأنعام: ١٢١] {وإذا تتلى عليهم آياتنا بينات ما كان حجتهم} [الجاثية: ٢٥] {والذين إذا أصابهم البغي هم ينتصرون} [الشورى: ٣٩] وغير ذلك……… وكذا لو كان التعليق بلفظ أعجمي، وقد قال العلامة قاسم إنه يحمل كلام كل عاقد وناذر وحالف على لغته، هذا ما ظهر لي والله سبحانه وتعالى أعلم. ثم رأيت بعد كتابتي لهذا في شرح نظم الكنز للعلامة المقدسي أقول: ينبغي ترجيح قول أبي يوسف لكثرة حذف الفاء كما سمعت، وقالوا العوام لا يعتبر منهم اللحن في قولهم أنت واحدة بالنصب الذي لم يقل به أحد. اهـ.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved