• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

لڑکی کے معروف نام سے نکاح اور اس کے بعد تین طلاقوں کی ایک صورت کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں مشتاق احمد ولد فضل الرحمن ہوں، میرا نکاح فاطمہ بنت اکبر خان کے ساتھ یکم نومبر 2020 کو ہوا جو کہ مولوی صاحب نے  گواہان کے روبرو پڑھایا، پانچ ماہ بعد کسی چیز کی تلاش کے دوران بیوی کے شناختی کارڈ پر میری نظر پڑی تو مجھے معلوم ہوا کہ فاطمہ جس سے میرا نکاح ہوا ہے اس کا اصلی نام زاہدہ زوجہ محمد رؤف ہے اور اس کے شناختی کارڈ پر بھی اسکا نام زاہدہ رؤف ہی ہے، محمد رؤف اس کے سابقہ شوہر کا نام ہے، اور  تقریبا پندرہ سالوں سے کارڈ پر اس کا یہی نام چلا آ رہا ہے، ہماری فیملی کو شادی سے پہلے یہ بتایا گیا کہ اس کا نام فاطمہ ہے اور یہ بتایا گیا کہ اس نے 15 سال پہلے خلع لی تھی، نکاح کے وقت مولوی صاحب نے فاطمہ بنت اکبر خان کا نام لے کر نکاح کروایا، مولوی صاحب نے نہ تو فاطمہ کا شناختی کارڈ دیکھا اور نہ ہی خلع نامہ  دیکھا۔ اب جب میں نے اور میری فیملی نے فاطمہ کے بہن بھائیوں سے اس معاملے کے بارے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ فاطمہ نے خلع نہیں لی تھی بلکہ اس کو طلاق ہوئی تھی اور اس وقت اس کا شوہر بیرون ملک لندن میں تھا اور فون پر طلاق دی تھی، جب کہ فاطمہ اپنے سابقہ شوہر کے نام والے شناختی کارڈ سے 2017 میں عمرہ بھی کر کے آئی ہے، عمرہ کے لئے نکاح نامہ لگانا پڑتا ہے، اگر فاطمہ طلاق یافتہ ہے اور اپنے پہلے شوہر سے لاتعلق ہےتو وہ عمرہ کیسے کر سکتی ہے ؟ میرے خیال میں شریعت اور قانون کے حساب سے اس طرح دھوکہ کرنا  گناہ اور سنگین جرم ہے، مفتی صاحب میں اپنی پانچ ماہ کی ازدواجی زندگی سے پریشان ہوں، میں ایک دین دارمسلمان ہوں، (1)  آپ سے گزارش ہے کہ اس تمام معاملے کے بارے میں قرآن و سنت کی روشنی میں فتویٰ جاری فرمائیں اور بتائیں کہ میرا نکاح درست ہوا ہے یا نہیں؟

بیوی کا بیان:دارالافتاء کے نمبر سے بیوی سے رابطہ کیا گیا تو اس نے کہا کہ میرا سابقہ شوہر محمد رؤف 2007 میں مجھے فون پرتین طلاقیں دے چکا ہے، جن کے الفاظ یہ تھے کہ ’’میں نے تمہیں طلاق دی،   میں نے تمہیں طلاق دی،  میں نے تمہیں طلاق دی‘‘ اور اس نے لندن سے طلاق کے کاغذات بھی بھیجے تھے لیکن وہ مجھ تک نہیں پہنچے، کچھ دن تک وہ اپنا تحریری بیان لندن سے بھیج دے گا۔ اور مجھے گھر میں فاطمہ کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے اس لیے ان کو فاطمہ نام بتایا تھا۔ (رابطہ کنندہ: محمد سلیمان)

بیوی کے بھائی نے تصدیق کی ہے کہ گھر میں ہماری بہن کو فاطمہ کے نام سے پکارا جاتا ہے، اور نکاح میں گواہ ہمارے بھائی اور کزن تھے، ان سب کو معلوم ہے کہ میری بہن کا نام فاطمہ ہے۔

پہلے شوہر کا بیان:  میرا نام محمد رؤف ہے، میری تاریخ پیدائش 01-01-1964 ہے۔ میرا پاکستان  کا ایڈریس  سٹریٹ نمبر 1 ، مکان نمبر 17 ،کیپٹن جمال روڈ، ساندہ کلاں، لاہور ہے، میرا لندن کا ایڈریس 2 بارڈنی روڈ، مارڈن sm4, 5JL ہے،  26 مارچ 1990 کو میری شادی زاہدہ نامی عورت ساکن گلشن راوی لاہور سے ہوئی، اس عورت سے میرے دو بیٹے محمد اویس اور محمد سیف پیدا ہوئے، 16 جولائی 2001 کو میں لندن آگیا، لیکن لندن آنے سے پہلے 14 جولائی کو میں نے شبانہ نامی ایک عورت سے چپکے سے کورٹ میرج کر لی، میرا خیال تھا کہ کسی کو پتہ نہیں چلے گا، لیکن  میری بیوی زاہدہ کو اس بات کا پتہ چل گیا، اور میرا دوسرا نکاح ہمارے جھگڑوں کی بنیاد بنا، 2007 تک جھگڑے بہت شدید ہو گئے اور مجبوری میں مجھے زاہدہ کو طلاق دینی پڑی، یہ طلاق میں نے دو گواہان کی موجودگی میں شرعی اور اسلامی قانون کے مطابق تین بار دی، یاد رہے کہ وہ گواہان میرے دوست تھے، بالغ اور شادی شدہ تھے، ان میں سے ایک  بشارت احمد سندھو از لندن اور دوسرے یا سر رحمان از لندن تھے۔ میں نے لندن سے طلاق کے پیپر بنوائے تھے اور زاہدہ کے نام پوسٹل رجسٹری (ڈاک) بھیجی تھی، لیکن کسی وجہ سے وہ زاہدہ تک  نہیں پہنچ سکے،  یہ میری زبانی طلاق کے بعد بچوں کو میرے گھر چھوڑ کر جاچکی تھی، اس کے بعد ایک اور المیہ یہ ہوا  کہ میں اسی دوران پکڑا گیا اور تقریبا دس ماہ سے زیادہ جیل میں رہا، اس کے بعد میرا اس  عورت سے کبھی کوئی رابطہ نہیں ہوا  اور نہ میں رابطہ کرنا چاہتا تھا اور اس نے بھی اپنی طرف سے رابطہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ میں باقاعدہ ہوش و حواس میں اقرار کرتا ہوں کہ میں زاہدہ نامی عورت کو طلاق دے چکا ہوں۔ میں اور میرا خاندان اس کے کسی قول و فعل کا ذمہ دار نہیں ہے اور نہ آئندہ کبھی ہوگا شکریہ۔

نوٹ: پہلے شوہر کا بیان آنے سے پہلے دوسرے شوہر نے طلاقنامے تیار کراوئے اور ایک طلاقنامے پر دستخط بھی کر دیے لیکن بیوی کو طلاقنامے ابھی تک  بھیجے نہیں۔

طلاقنامے کی عبارت:

’’ منکہ مشتاق احمد ولد فضل الرحمن، شناختی کارڈ نمبر 9 -3751353-35202ساکن مکان نمبر 6، گلی نمبر 56، سنت نگر اسلام پورہ لاہور کا رہائشی ہوں، من مقر کا نکاح بشریعت محمدی مورخہ۔۔۔۔۔۔۔۔کو ہمراہ مسماۃ فاطمہ دختر اکبر علی خان ساکن مکان نمبر 357، بلاک A، گلشن راوی لاہور بعوض حق مہر بیس ہزار روپے / 20000 ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔من طلاق دہندہ باہوش و حواس خمسہ بلا جبر و اکراہ بہ ثبات عقل اپنی کامل و آزادانہ رضامندی سے مسماۃ فاطمہ دختر اکبر علی خان ساکن مذکورہ بالا کو طلاق ثلاثہ (طلاق، طلاق، طلاق) دیتا ہوں۔ آج مورخہ-2021 08-08کے  بعد من مقر اور مسماۃ فاطمہ دختر اکبر علی خان ساکن مذکورہ بالا کا تعلق ہمیشہ کیلئے ختم ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘

مذکورہ طلاقنامے کو اچھی طرح پڑھنے کے بعد میں نے دستخط کیے تھے اور مجھے معلوم تھا کہ اس میں تین طلاقیں لکھی ہوئی ہیں، ابھی تک طلاقنامہ نہیں بھیجا،(2) مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟ اگر واقع ہو گئی ہے تو صلح ہو سکتی ہے یا نہیں؟ ہم صلح کرنا چاہتے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ صورت میں آپ کا نکاح  درست ہو گیا تھا۔

توجیہ: پہلا شوہر چونکہ تین طلاقیں دے چکا تھا اور اس کی عدت بھی گزر چکی تھی ، نیز لڑکے کو لڑکی کا وہی نام بتایا گیا جس نام سے اس کو گھر میں پکارا جاتا ہے اور نکاح میں بھی لڑکی کا وہی معروف نام لیا گیا  لہذا نکاح درست ہو گیا ہے ۔

2۔  طلاق کے وقوع کے لئے طلاقنامہ بھیجنا ضروری نہیں، طلاقنامے پر دستخط کرنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، مذکورہ صورت میں چونکہ آپ نے طلاقنامے کو پڑھ کر  دستخط کیے ہیں لہذا تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں، جن کی وجہ سے آپ کی بیوی آپ پر حرام ہو گئی ہے لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

فتح القدیر (184/3) میں ہے:

 تزوج باسمها الذي تعرف به حتى لو كان لها اسمان اسم في صغرها وآخر في كبرها تزوج بالأخير لأنها صارت معروفة به ۔

شامی (88/4) میں ہے:

لو كانت غائبة وزوجها وكيلها فإن عرفها الشهود وعلموا أنه أرادها كفى ذكر اسمها.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

امدادالفتاویٰ جدیدمطول(183/5)میں ہے:

سوال :ایک شخص نے دوسرے سے کہا ایک طلاق لکھ دو اس نے بجائے صریح کے کنایہ لکھ دیا آمر نے بغیر پڑھے یا پڑھائے دستخط کر دیئے تو کیا حکم ہے اور دستخط کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔الخ

الجواب :اگر مضمون کی اطلاع پردستخط کئے ہیں تو معتبر ہے ورنہ معتبر نہیں قواعد سے یہی حکم معلوم ہوتا ہے اور دستخط کرنا اصطلاحاً اس مضمون کو اپنی طرف منسوب کرنا ہے۔۔۔۔۔الخ”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved