• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصے میں بیوی کو ’’ہمارا رشتہ ختم خدا کی قسم‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کچھ دن پہلے میری بیوی نے میکے جانا تھا جس دن وہ جا رہی تھی اس نے صبح مجھے بتایا تھا کہ میں آج امی کے گھر جاؤں گی، لیکن میں دکان پر گیا ہوا تھا تو جاتے وقت اس نے مجھے نہیں بتایا، میرے والد صاحب کوبتا کر اپنے بھائی کے ساتھ چلی گئی، جب میں دکان سے گھر آیا تو وہ گھر پر نہیں تھی میں نے اس کو کال کی اور کہا کہ تم پوچھ کر کیوں نہیں گئیں؟ اور کہا کہ اپنی امی سے بات کراؤ، میں نے اس کی والدہ سے کہا کہ آپ کی بیٹی مجھے بتائے بغیر گئی ہے اور میں نے کال کاٹ دی، پھر میں اپنے ابو سے پوچھنے دکان پر جا رہا تھا تو راستے میں میری بیوی کی کال آئی اور اس نے کہا کہ میں تو آپ کو بتا کر آئی ہوں، تو میں نے کہا کب بتایا تھا اور ساتھ ہی میں نے غصے میں کہا کہ ’’ہمارا رشتہ ختم خدا کی قسم‘‘ یہ کہہ کر میں نے کال کاٹ دی لیکن میری طلاق کی نیت نہیں تھی۔ مہربانی فرما کر مجھے بتائیں کہ ان الفاظ سے طلاق تو نہیں ہوئی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً ان الفاظ سے کہ ’’ہمارا رشتہ ختم خدا کی قسم‘‘ آپ کی  طلاق کی نیت نہیں تھی  تو مذکورہ الفاظ کہنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، تاہم طلاق کی نیت نہ ہونے پر آپ کو اپنی بیوی کے سامنے قسم کھانی ہو گی، اگر آپ قسم کھانے سے انکار کریں گے تو بیوی اپنے حق میں ایک بائنہ طلاق شمار کرے گی، کیونکہ مذکورہ جملہ کنایات طلاق کی دوسری قسم میں سے ہے جس سے عام حالات میں یا غصے کی حالت میں نیت کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی، تاہم نیت نہ ہونے پر شوہر کو قسم دینی پڑتی ہے۔

نوٹ: بائنہ طلاق میں سابقہ نکاح ختم ہو جاتا ہے اور اکٹھے رہنے کے لیےنیا مہر مقرر کر کے گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہوتا ہے۔

درمختارمع ردالمحتار (4/521) میں ہے:

(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا

و فى الشامية تحته: والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية

درمختارمع ردالمحتار (4/521) میں ہے:

والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى

درمختار (5/42) میں ہے:

(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع)

عالمگیری (376/1) میں ہے:

وفي الفتاوى لم يبق بيني وبينك عمل ونوى يقع كذا في العتابية.

امدادالمفتین (ص: 527) میں ہے:

(سوال )زید اپنی بیوی ہندہ کو اس کے گھر لینے گیا، ہندہ نے چلنے سے انکار کر دیا ،اس وقت زید نے کہا، اس وقت میرے ساتھ نہ چلو گی تو آج سے مجھ سے کوئی واسطہ کوئی تعلق کوئی سروکار عمر بھر نہ ہوگا اس پر ہندہ نے جانے سے انکار کر دیا اور زید نے تین مرتبہ یہ لفظ کہے  ’’ہم سے تم سے کوئی تعلق نہیں ‘‘ اور ہندہ کے ورثاء سے کہا کہ ہمارے زیور واپس کردو اور ہمارے جہیز کے برتن واپس منگالو ۔

 (الجواب)زید کا قول ہم سے تم سے کوئی تعلق نہیں ،  یہ کنایۂ طلاق ہے صرح به فی العالمگيرية والخلاصة حیث قال لم یبق بینی وبینك عمل اوشئی وامثال ذلك اور یہ کنایہ قسم ثانی میں داخل ہے جس کا حکم یہ ہے کہ نیت پر موقوف ہے ، اگر زید نے ان لفظوں سے طلاق کی نیت کی ہے جیسا کہ قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے تو ایک طلاق بائنہ واقع ہوگئی اور اگر نیت نہیں کی تو طلاق واقع نہیں ہوئی، زید سے حلف لے کر دریافت کیا جاسکتا ہے قال فی الدر المختار،وفی الغضب توقف الا ولان ای نوی وقع والالا وقال قبله باسطر والقول له بیمینه فی عدم النية ویکفی تحلیفها له فی منزله فان ابى رفعته الی الحاکم فان نکل فرق بینهما .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved