• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

(۱)عدت کا خرچ(2)نکاح ختم ہونے کے بعد طلاق کا نوٹس بھیجنے کاحکم

استفتاء

میرا(احمد جلال ملک ولد ملک محمد طارق)کا نکاح حرا بیگ ولد نسیم بیگ سے مارچ 2019ء میں قرار پایا۔ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے اور شوہر کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے پر پہلی زبانی طلاق 4جنوری 2021ء کو دی اور طلاق کے الفاظ یہ تھے کہ”میں اپنی بیوی کو پہلی طلاق دیتا ہوں” مگر ایک ہفتہ بعد جسمانی تعلق کے ذریعے رجوع کر لیا،ایک ماہ گزرنے کے بعد وہی حالات پیدا ہوئے جس کی وجہ سے دوسری زبانی طلاق 23فروری2021ء کو دی گئی،طلاق کے الفاظ یہ تھے کہ” میں اپنی بیوی کو دوسری طلاق دیتا ہوں” جس کے بعد رجوع نہیں کیا گیا۔اس کے بعد طلاق کے دو تحریری نوٹس بھی بھیجے تھے جو ساتھ لف ہیں۔پہلا نوٹس  21.5.21کو بھیجا تھا  اور دوسرا نوٹس 21.6.21کو بھیجا تھا ۔

مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں پوچھنا یہ ہےکہ:

(1)دوسری طلاق کے بعد عدت جو لڑکی نے اپنے میکے میں پوری کی کیونکہ لڑکی کے والدین لڑائی کر کے لڑکی کو خود لے کر گئے تھےاس کا ماہوار خرچ کیا شرعا مجھ پر واجب ہے؟

(2) پاکستانی قانون کے مطابق دو نوٹس بھجوا دیے گئے ہیں اگر طلاق کا تیسرا نوٹس  صرف قانونی چارہ جوئی پورا کرنے کے لیے بھجوا دیا جائے تو کیا  یہ شرعی طور پر تیسری طلاق مانی جائے گی ؟اور میری بیوی تین طلاقوں سے مجھ پر حرام ہو جائے گی ؟جبکہ وہ میرے نکاح میں نہیں ہے۔

نوٹ:بیوی سے فون پر رابطہ کیا  گیا تھا ،بیوی کا کہنا ہے کہ دوسری طلاق کے بعداور  پہلا طلاق نامہ بھیجنے سے پہلے  تین ماہواریاں گزر  چکی تھیں۔

نوٹ:عدت کے خرچہ کا مسئلہ شوہر عدالتی کاروائی کے لئے نہیں بلکہ شرعی حکم معلوم کرنے کے لئے پوچھ رہا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1))مذکورہ صورت میں گزری ہوئی  عدت کا خرچ آپ کے ذمہ واجب نہیں۔

توجیہ:مذكوره صورت ميں اولا تو بیوی کے نشوز  (نافرمانی اور شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے میکے جا کر عدت گذارنے ) کی وجہ سے شوہر کے ذمہ نفقہ واجب نہیں ہوا اور  ثانیا اگر نشوز (نافرمانی )نہ بھی پایا جاتا تو پھر بھی عدت کا خرچہ شوہر کے ذمہ واجب نہ ہوتا کیونکہ عدت گزر  جانے کے بعد عدت کا خرچ اس وقت شوہر پر لازم  ہوتا ہے جب عدالت کی طرف سے  خرچہ مقرر ہو یا میاں، بیوی نے باہمی رضا مندی سے آپس میں مقرر کر لیا ہو،مذکورہ صورت میں  چونکہ  نہ تو عدالت  نے نفقہ مقرر کیا ہے اور نہ میاں، بیوی نے آپس میں مقرر کیا ہے  اس لئے  شوہر پر نفقہ واجب نہیں۔

2))مذکورہ صورت میں طلاق کا تیسرا نوٹس بھیجنے سے مزید کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔

توجیہ: جب شوہر نے اپنی بیوی کو پہلی طلاق دی اور اس کے  ایک ہفتہ بعد رجوع کر لیا تو نکاح باقی رہا پھر ایک ماہ بعد دوسری  رجعی طلاق دے دی اور رجوع نہیں کیا،تو  عدت گزر نے سے رجعی طلاق بائنہ بن گئی اور  نکاح ختم ہوگیا اور بیوی طلاق کا محل نہ رہی لہذا عدت کے بعد  بھیجے گئے   پہلے اور دوسرے طلاق نامےسے   کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور طلاق کا تیسرا نوٹس بھیجنے سے بھی مزید کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔

درمختار مع رد المحتار (340/5)میں ہے:

(و) تجب (لمطلقة الرجعى والبائن والفرقة بلا معصية كخيار عتق، وبلوغ وتفريق بعدم كفاءة النفقة والسكنى والكسوة) ان طالت المدة، ولا تسقط النفقة المفروضة بمضى العدة على المختار

وفي الشامية تحته: قوله: (وتجب لمطلقة الرجعى والبائن) ……….وفي المجتبى: نفقة العدة كنفقة النكاح، وفي الذخيرة: وتسقط بالنشوز وتعود بالعود، واطلق فشمل الحامل وغيرها والبائن بثلاث او اقل كما في الخانية

    قوله: (ولا تسقط النفقة الخ) أى: اذا مضت مدة العدة  ولم تقبضها  فلها أخذها لو مفروضة: أى: أو مصطلحا عليها

عالمگیری(2/475)میں ہے:

اذا خاصمت المرأة زوجها في نفقة ما مضى من الزمان قبل أن يفرض القاضي لها النفقة وقبل أن يتراضيا على شيء فان القاضي لا يقضي لها بنفقة ما مضى عندنا

البحر الرائق (303/4)میں ہے:

قوله لا ناشزة) …………وعن الزجاج النشوز يكون بين الزوجين وهى كراهة كل واحد منهما صاحبه، كذا في المغرب وفي الشارع كما قال الأمام الخصاف الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه والمراد بالخروج كونها  في غير منزله بغير اذنه

بدائع الصنائع(283/3)میں ہے:

أما الطلاق الرجعى فالحكم الأصلى له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك وحل الوطء فليس بحكم اصلى له لازم حتى لا يثبت للحال وانما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فان طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت

در مختار مع رد المحتار(317/4)میں ہے:

(ومحله المنكوحة)

وفي الشامية تحته: أى ولو معتدة عن طلاق رجعى أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في امة

بدائع الصنائع(199/3)میں ہے:

واما الذي يرجع الى المرأة فمنها: الملك أو علقة من علائقه فلا يصح الطلاق الا في الملك او علقة من علائق الملك،وهي عدة الطلاق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved