• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میسج کے ذریعے بیوی کو ’’ آخری اور تیسری طلاق دیتا ہوں‘‘  کہنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری اہلیہ کی اور میری تین دفعہ ناچاقی ہوئی ہے، اس میں پہلی مرتبہ میں نے اپنا نام لے کر اور اہلیہ کا نام لے کر کہا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ اس طلاق کے بعد اسی رات کوازدواجی تعلق قائم کر کے رجوع کر لیا تھا،دوسری مرتبہ پھر لڑائی ہوئی تو میں نے ابھی نام لینا شروع ہی کیا تو اسکو اندازہ تھا کہ واقعی میں دوبارہ طلاق دوں گا تو اس نے اصرار کے ساتھ  معافی مانگ کر طلاق نہ دینے کا مطالبہ کیا تو میں نے صریح یا غیر صریح طلاق کا کوئی بھی لفظ نہیں استعمال کیا اور رک گیا،مگر ایک عالم نے کہا چونکہ مجلس الگ تھی اور ارادہ تھا اور بیوی سمجھ گئی کہ شوہر نے طلاق دینی ہےلہذا طلاق ہوگئی، حالانکہ طلاق کے الفاظ کا استعمال نہیں ہواتھا، اب پاکستان میں تیسری دفعہ جب ناچاقی ہوئی اور ذہن میں تھا کہ عالم نے بتایا ہے کہ 2 طلاقیں ہوچکی ہیں تو میں نے واٹس ایپ کے   ذریعے میسج لکھ کر بھیجا کہ ’’میں ضیاء الرحمن ولد محمد آزاد تم فلانہ زوجہ ضیاء جو تھی، اب تم دختر محمد صدیق کو آخری اور تیسری طلاق دیتا ہوں‘‘ ان الفاظ سے میری طلاق کی نیت نہیں تھی، صرف ڈرانے دھمکانے کے لیے میسج کیا تھا، میری اہلیہ نے کسی عالم سے رابطہ کر کے فتویٰ لیا تو انہوں نے بتایا کہ ہماری 2 طلاقیں ہوئی ہیں، 3 نہیں ہوئیں، میری بیوی نے رجوع کا کہا تو میں نے قبول کیا اور رجوع کے الفاظ کہے کہ ’’میں تم سے رجوع کرتا ہوں‘‘ اور عملی رجوع بھی ہوا،  پھر اسکے والدین کو پتہ چلا تو اس کو گھر یعنی میرے پاس واپس آنے سے روک دیا اور اپنے گھر رکھ لیا اور کہا کہ تمہیں 3 طلاقیں ہوگئی ہیں اور صلح کے لئے جرگہ کا مطالبہ کیا۔ میسج کا عکس ساتھ لف ہے،  اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں کتنی طلاقیں ہوئی ہیں؟جزاکم اللہ خیرا وبارک اللہ فیکم

بواسطہ ذوالفقار علی پی اے ایف

نوٹ: دارالافتاء کے نمبر سے لڑکی کے والد سے رابطہ کیا گیا تو دو مرتبہ انہوں نے کہا کہ میں بیٹی سے بات کراؤں گا وہی آپ کو ساری صورتحال سے آگاہ کرے گی، پھر جب تیسری مرتبہ رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ مسئلہ حل ہو چکا ہے اور ہماری صلح ہو گئی ہے،  جبکہ شوہر سے دوبارہ رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا کہ ابھی تک مسئلہ حل نہیں ہوا اور اختلاف چل رہا ہے، لہذا لڑکی  کے والد کے مؤقف نہ دینے کی وجہ سے مشروط جواب لکھا جا رہا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتا آپ نے پہلی مرتبہ یہی الفاظ کہے تھے کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ اور دوسری مرتبہ طلاق کا کوئی لفظ زبان سے نہیں کہا اور تیسری مرتبہ یہی تحریری   میسج بھیجا  کہ ’’میں ضیاء الرحمن  محمد آزاد اپنے پورے ہوش میں آپ فلانہ زوجہ ضیاء جو تھی اب فلانہ دختر محمد صدیق ہو تمہیں آخری اور تیسری طلاق دیتا ہوں‘‘ اور میسج کے مذکورہ الفاظ سے  آپ کی طلاق کی نیت نہیں تھی تو اس میسج  سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اور آپ نے پہلی مرتبہ جو طلاق دی تھی صرف وہی ایک طلاق واقع ہوئی ہے، تاہم طلاق کی نیت نہ ہونے پر آپ کو بیوی کے سامنے قسم دینی ہو گی، اگر آپ قسم نہیں دیتے تو بیوی اپنے حق میں تین طلاقیں شمار کرے گی۔ تین طلاقوں کا حکم یہ ہے کہ بیوی شوہر پر حرام ہو جاتی ہے، اور رجوع یا   صلح کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

توجیہ:  ہماری تحقیق میں میسج کی تحریر کتابت غیر مرسومہ ہے، اور کتابت غیر مرسومہ سے شوہرکی طلاق کی نیت ہو تو طلاق واقع ہوتی ہے، نیت کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اور میسج کے الفاظ ’’آخری اور تیسری طلاق دیتا ہوں‘‘ اس سے پہلے دو طلاقوں کے وقوع کا تقاضا کرتے ہیں لہذا اگر شوہر قسم دینے سے انکار کرے گا تو بیوی تین طلاقیں شمار کرے گی۔

نوٹ: اگر شوہر طلاق کی نیت نہ ہونے پر قسم  دیدے گا تو آئندہ اس کے پا س صرف دو طلاقوں کا حق باقی ہو گا۔

عالمگیری (1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

فتاوی شامی (442/4) میں ہے:

وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق یقع وإلا لا.

ہدایہ (/2391) میں ہے:

وفي كل موضع يصدق الزوج على نفي النية إنما يصدق مع اليمين لأنه أمين في الإخبار عما في ضميره والقول قول الأمين مع اليمين.

درمختار مع ردالمحتار () میں ہے:

وفي القنية: طلقتك آخر الثلاث تطليقات فثلاث وطالق آخر، ثلاث تطليقات فواحدة. والفرق دقيق حسن.

(قوله والفرق دقيق حسن) وجه الفرق أنه أضاف الآخر إلى ثلاث معهودة ومعهوديتها بوقوعها بخلاف المنكر. اهـ. ح. أقول: هذا بعد تسليمه إنما يتم بناء على ما ذكره الشارح تبعا للبحر في أول باب الطلاق الصريح من تعريف لفظ ثلاث في الأولى وتنكيره في الثانية مع أنه منكر في الصورتين كما رأيته في عدة كتب كالتتارخانية والهندية والذخيرة والبزازية وقد ذكر الفرق في البزازية بأن الآخر هو الثالث، ولا يتحقق إلا بتقدم مثليه، عليه لكنه في الأولى أخبر عن إيقاع الثلاث، وفي الثانية وصف المرأة بكونها آخر الثلاث بعد الإيقاع وهي لا توصف بذلك فبقي أنت طالق وبه تقع الواحدة. اهـ.

فمناط الفرق في التعبير بالفعل الماضي في الأول واسم الفاعل في الثاني لا من التعريف والتنكير فافهم ممكن ومقتضاه أن لفظ آخر في الثانية مرفوع خبرا وثانيا عن أنت ليصير وصفا للمرأة؛ أما لو كان منصوبا يكون وصفا للطلاق فيساوي الصورة الأولى، واحتمال كونه منصوبا على الظرفية خبرا ثانيا بعيد.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved