• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’اگر میرا نکاح حفصہ کے علاوہ کسی سے ہوا تو اسے طلاق‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ! کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ:

ایک شخص کی شادی حفصہ نامی لڑکی سے ہونی تھی، کچھ مسائل پیدا ہوگئے تو اس نے کہا کہ ’’اگر میرا نکاح حفصہ کے علاوہ کسی سے ہوا تو اسے طلاق‘‘ تو اس صورت میں اگر وہ کسی اور سے نکاح کرے گا تو طلاق واقع ہوجائے گی یا نہیں؟ رہنمائی فرما کر ممنون فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر اس شخص کا نکاح حفصہ کے علاوہ کسی عورت سے ہوا تو نکاح کرتے ہی اس عورت کو ایک طلاق واقع ہوجائے گی اور یہ طلاق رخصتی  سے پہلے واقع ہونے کی وجہ سے بائنہ ہوگی جس سے نکاح فورا ختم ہوجائے گا۔ ایک دفعہ طلاق واقع ہونے کے بعد یمین ختم ہوجائے گی لہٰذا اس شخص نے اگر اسی عورت سے دوبارہ نکاح کرلیا یا کسی اور سے نکاح کرلیا تو طلاق واقع نہ ہوگی۔

مذکورہ صورت میں اگر یہ شخص حفصہ کے علاوہ کسی اور سے نکاح کرنا چاہے تو طلاق سے بچنے کے لیے یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی دوسرا شخص اس کا نکاح کر دے پھر جب اس کو نکاح کی خبر پہنچے تو زبان سے اجازت نہ دے بلکہ خبر سن کر خاموش رہے،البتہ تحریری اجازت دے دے یا مہر بیوی کی طرف بھیج دے۔تحریری اجازت یا مہر بھیجنے سے قبل اگر کوئی اس کو نکاح کی مبارکباد دے تو اس کو یوں کہے کہ میں ابھی اس پر غور کر رہا ہوں،  خاموش بھی نہ رہے کیونکہ ایسے موقع پر خاموشی اجازت کے حکم میں ہے۔

ہندیہ (1/420) میں ہے:

وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.

ہندیہ (1/414) میں ہے:

رجل قال أية امرأة أتزوجها فهي طالق فهذا على امرأة واحدة إلا أن ينوي جميع النساء وهذا بالعربية ولو قال بالفارسية هر كدام زن كه بزنى كنم يقع كل امرأة قال الصدر الشهيد رحمه الله تعالى والمختار أنه يقع على امرأة واحدة

شامی (4/596) میں ہے:

(وفيها [أي الفاظ الشرط]) كلها (تنحل) أي تبطل (اليمين) ببطلان التعليق (إذا وجد الشرط مرة إلا في كلما….

 

قوله: (إلا في كلما) فإن اليمين لا تنتهي بوجود الشرط مرة وأفاد حصره أن متى لا تفيد التكرار وقيل تفيده والحق أنها إنما تفيد عموم الأقات…… إلى أن قال …. و أي كذلك حتى لو قال أي امرأة أتزوجها فهي طالق لا يقع إلا على امرأة واحدة كما في المحيط وغيره

ہندیہ (1/419) میں ہے:

إذا قال: كل امرأة أتزوجها فهي طالق فزوجه فضولي وأجاز بالفعل بأن ساق المهر ونحوه لا تطلق.

البحر الرائق (4/621) میں ہے:

وفي الخلاصة: لو قال كل امرأة تدخل في نكاحي فهي طالق فهذا بمنزلة ما لو قال كل امرأة أتزوجها وكذا لو قال كل امرأة تصير حلالا لي …..

(وبعد اسطر قال) فعلى هذا لو قال كل امرأة تدخل في عصمتي فهي طالق فإنه يزوجه فضولي ويجيز بالفعل ولا يحنث كما لا يخفى

وقال الشامي فی منحة الخالق (4/10)

قال في الظهيرية: ثم الإجازة بالفعل أن يبعث إليها شيئا من المهر………اهـ. وفيها قبل هذا، وكذا الحيلة في حق من حلف كل امرأة تدخل في نكاحي فهي طالق ثلاثا إن الفضولي يزوجه امرأة ثم هو يجيز بالفعل فلا يحنث، وإن دخلت في نكاحه لأن دخولها فيه لا يكون إلا بالتزويج فيكون ذكر الحكم ذكر سببه المختص به فكأنه قال إن تزوجتها وبتزويج الفضولي لا يصير هو متزوجا.’’اگر میرا نکاح فلاں عورت کے علاوہ کسی سے ہوا تو اسے طلاق‘‘ کہنے کا حکم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved