• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مطلقہ ثلاثہ کا حلالے کی شرط پر نکاح کروانے کے بعد سابقہ شوہر کا اس بیوی سے زنا کرنے سے حلالے کا حکم اور ایک سابقہ فتویٰ سے متعلق مزید وضاحت

استفتاء

مفتی صاحب! میں آپکا شکر گزار ہوں آپ نے جو مسئلہ (فتویٰ نمبر ۲۱/۳۱۴) بتایا تھا جس کی کاپی ساتھ لف ہے، اس سے میری زندگی کو بہت سکون ملا تھا اور میں ایک دو مہینے تک واپس پاکستان بھی جارہا ہوں اور میری سابقہ بیوی بول رہی ہے کہ واپس آتے ہی نکاح کرنا ہے۔ لیکن مفتی صاحب میں نے آپ سے ایک بات چھپائی تھی ۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب بیوی کا عرصہ عدت گزرنے کے بعد حلالہ کے لیے نکاح ہوا تو ان کے ملنے سے پہلے  مجھ پہ شیطان حاوی ہوگیا اور مجھ سے اپنی سابقہ بیوی کے ساتھ زنا ہوگیا، اس نے مجھے روکا بھی تھا لیکن مجھ پر شیطان سوار تھا اور ہم نے ہمبستری کر لی جس کا اس کے دوسرے شوہر کو بالکل بھی علم نہیں تھا اور اس کے بعد دوسرے شوہر نے الگ کمرے میں جاکر اپنا ازدواجی تعلّق قائم کیا اور تین طلاق دے کر چلا گیا۔ (جس کی تفصیل سابقہ سوال نمبر 2406/2 میں بھیجی تھی) مجھے پتا ہے میں نے بہت گھٹیا حرکت کی اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوگیا۔ میں نے سوچا تھا کہ اس گناہ کا کسی کو نہیں بتاؤں گا لیکن مجھے سکون نہیں مل رہا اور سمجھ آگئی ہے کہ اللہ کی ناراضگی سے بچنا ہے تو علماءِ کرام کو ساری بات بتانی چاہیے تاکہ وہ رہنمائی کریں اور آخرت کے عذاب سے بچائیں کیونکہ دنیا کی ذلّت آخرت کی ذلّت سے بہتر ہے اور دنیا میں توبہ کا موقع بھی مل جاتا ہے۔

میرا سوال یہ ہے کے جو میں نے گندی حرکت کی تھی اس سے ان کے نکاح پر تو کوئی اثر نہیں پڑا کیونکہ ان کا نکاح قائم رہا تھا تو پھر ہی میں سابقہ بیوی سے نکاح کر سکتا ہوں ۔برائے مہربانی میری رہنمائی فرمائیں کہ کیا میں سابقہ بیوی ساتھ نکاح کرسکتا ہوں؟ یا میں نے جو حرکت کی تھی اس سے ان کا نکاح متاثر ہوگیا تھا  اور حلالہ صحیح نہیں ہوا تھا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دوسرے شوہر سے نکاح کے بعد آپ کا اپنی سابقہ بیوی سے زنا کرنا اگرچہ بڑے گناہ کا فعل ہے جس پر توبہ واستغفار کرنا لازم ہے تاہم اس سے ان کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا لہٰذا دوسرے شوہر نے ہمبستری کے بعد جب تین طلاقیں دے دی تھیں تو بیوی کی عدت گزر جانے کے بعد آپ اپنی سابقہ بیوی سے نکاح کرسکتے ہیں۔

در مختار مع رد المحتار (5/215) میں ہے:(وكذا لا عدة لو تزوج امرأة الغير) ووطئها (عالما بذلك) وفي نسخ المتن (ودخل بها) ولا بد منه وبه يفتى، ولهذا يحد مع العلم بالحرمة لأنه زنا، والمزني بها لا تحرم على زوجها وفي شرح الوهبانية: لو زنت المرأة لا يقربها زوجها حتى تحيض لاحتمال علوقها من الزنا فلا يسقي ماؤه زرع غيره، فليحفظ لغرابتهقال الشامي تحته: قوله: (لا يقربها زوجها) أي يحرم عليه وطؤها حتى تحيض وتطهر كما صرح به شارح الوهبانية، وهذا يمنع من حمله على قول محمد لأنه يقول بالاستحباب، كذا قاله المصنف في المنح في فصل المحرمات وقدمنا عنه أن ما في شرح الوهبانية ذكره في النتف وهو ضعيف، إلا أن يحمل على ما إذا وطئها بشبهة اهـ فافهم. قوله: (فليحفظ لغرابته) أمر بحفظه لا ليعتمد بل ليجتنب بقرينة قوله لغرابته، فإن المشهور في المذهب أن ماء الزنا لا حرمة له «لقوله – صلى الله عليه وسلم – للذي شكا إليه امرأته إنها لا تدفع يد لامس: طلقها، فقال إني أحبها وهي جميلة، فقال له – صلى الله عليه وسلم – استمتع بها» وأما قوله: «فلا يسقي ماؤه زرع غيره» فهو وإن كان واردا عنه – صلى الله عليه وسلم – لكن المراد به وطء الحبلى لأنه قبل الحبل لا يكون زرعا بل ماء مسفوحا، ولهذا قالوا: لو تزوج حبلى من زنا لا يقربها حتى تضع لئلا يسقي زرع غيره لأن به يزداد سمع الولد وبصره حدة.فقد ظهر بما قررناه الفرق بين جواز وطء الزوجة إذا رآها تزني وبين عدم جواز وطء التي تزوجها وهي حبلى من زنا فاغتنمه.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved