• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کے حقوق زوجیت ادا نہ کرنے پر فسخ نکاح

استفتاء

عورت کے تین بچے ہیں، تیسری اولاد کی عمر تقریبا چودہ سال ہے ،اس  اولاد  کی پیدائش  کے بعد سے میاں بیوی کے درمیان  محبت یا جسمانی تعلق نہیں رہا،بیوی  نے کئی مرتبہ شوہر سے ازدواجی حق حاصل کرنے کی خواہش اور کوشش کی لیکن شوہر اپنا رخ موڑلیتے  ،پھر جب بیوی نے جھگڑا کیا تو شوہر نے کہا ” مجھ پر جنی عاشق ہے،کبھی  کہا "کسی  نے تعویز کئے ہیں ۔شوہر کا رجحان  مردوں کی طرف  ہے،انہیں عورتوں کی طرف کوئی دلچسپی نہیں ،بیوی نے کئی مرتبہ کبھی پیار سے اور کبھی غصہ  سے طلاق  مانگی لیکن کوئی جواب نہ دیا  گیا  ،انکی عمر 30 سال ہے ۔بس اب وہ عور ت بہت بیمار رہتی ہے وہ چاہتی ہے کہ اگر نکاح باقی نہیں رہاتو وہ کہیں اور   نکاح کرنا چاہتی ہے  ،آپ اس سلسلے میں انکی رہنمائی کریں ۔

وضاحت مطلوب ہے :میاں کی عمر  30سال ہے یا بیوی کی ؟

جواب وضاحت :دونوں کی عمر 30،32 سال ہے

وضاحت مطلوب ہے :شوہر کا رابطہ نمبر دیں

جواب وضاحت :وائف ان کو بتائے بغیر آپ سے مشورہ  چاہتی  تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر بیوی كا مطالبہ ہوتو شوہر پر واجب ہے کہ کم از کم چار مہینے میں ایک دفعہ اپنی بیوی سے صحبت کرے اگر وہ اس میں کوتاہی کرتا ہے تو اللہ تعالی کے ہاں توگناہگار ہو گالیکن اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا لہذا ابھی بھی آپ دونوں کا نکاح برقرار ہے۔اگر آپ کا شوہر حقوق زوجیت ادا کرنے پر تیار نہیں اور آپ کے لیئے صبر کرنا بھی مشکل ہے تو آپ اپنی طلب پوری کرنے کے لیئے کوئی مصنوعی آلہ استعمال کرسکتی ہیں اور اگر ایسا کرنے سے بھی خواہش پوری نہ ہو اور زنا میں مبتلا ہونے کا شدید خطرہ ہو تو عدالت سے حقوق زوجیت ادا نہ کرنے کی بنیاد پر تنسیخ نکاح کی ڈگری لے لیں اور عدت کے بعد کسی اور جگہ نکاح کر لیں ۔

درالمختار مع ردالمحتار(4/376) میں  ہے:"( قوله ويسقط حقها بمرة ) قال في الفتح : واعلم أن ترك جماعها مطلقا لا يحل له ، صرح أصحابنا بأن جماعها أحيانا واجب ديانة ، لكن لا يدخل تحت القضاء والإلزام إلا الوطأة الأولى ولم يقدروافيه مدة .ويجب أن لا يبلغ به مدة الإيلاء إلا برضاها وطيب نفسها به .ا هـ .قال في النهر : في هذا الكلام تصريح بأن الجماع بعد المرة حقه لا حقها ا هـ .قلت : فيه نظر بل هو حقه وحقها أيضا ، لما علمت من أنه واجب ديانة .قال في البحر : وحيث علم أن الوطء لا يدخل تحت القسم فهل هو واجب للزوجة وفي البدائع : لها أن تطالبه بالوطء لأن حله لها حقها ، كما أن حلها له حقه ، وإذا طالبته يجب عليه ويجبر عليه في الحكم مرة والزيادة تجب ديانة لا في الحكم عند بعض أصحابنا وعند بعضهم تجب عليه في الحكم "

الفقہ الاسلامی وادلتہ (9/5499) میں ہے:"وقال المالكية : الجماع واجب علي الرجل للمرئة اذا انتفي العذر "

الفقہ الاسلامی وادلتہ(7075/9) میں ہے:"ورأى المالكية والحنابلة: أن من ترك الوطء بغير يمين، لزمه حكم الإيلاء إذا قصد الإضرار،’فيحدد له مدة أربعة أشهر ، ثم يحكم له بحكم الإيلاء؛ لأنه تارك لوطئها ضرراً بها، فأشبه المولي. وكذلك من ظاهر من زوجته، ولم يكفِّر كفارة الظهار، تضرب له مدة الإيلاء ضرراً بها، فأشبه المولي،ويثبت له حكمه، لقصده الإضرار بها أيضاً”

الفقہ الاسلامی وادلتہ(9/7085) میں ہے:"حكم الفيء عند الجمهور غير الحنفية…… وإن لم يطأ، رفعت الزوجة الأمر إلى القاضي إن شاءت، وحينئذ يأمره القاضي بالفيئة إلى الوطء، فإن أبى، طلق القاضي عليه، ويقع الطلاق رجعياً.أي أن الطلاق الواجب على المولي عند الجمهور رجعي، سواء أوقعه بنفسه أو طلق الحاكم عليه؛لأنه طلاق لامرأة مدخول بها من غير عوض، ولا استيفاء عدد، فكان رجعياً كالطلاق في غير الإيلاء، بخلاف فرقة العنة فإنها فسخ لعيب، ولأن الأصل أن كل طلاق وقع بالشرع فيحمل على أنه رجعي إلى أن يدل الدليل على أنه بائن”

الحیلۃ الناجزۃ(ص:143) میں ہے:"تنبية …. لم يصرح أحد من أصحاب المتون والشراح التي وقفت عليها بألحاق المتنعت بالمعسر وغاية ماذكروا في حقه أنه يجبر علي النفقةأو يطلق عليه وهل هذا الطلاق يعد رجعيا فتلحق مالمعسر في الحكم وتشمله القاعدة المقررة في الاصل حيث أن الممتنع من الطأ الحقوه بالمولي فلعله نظيره او يعد بائنا ولا يشمله حكم المعسر حينئذ والله تعالي اعلم”

اسلام کے عائلی قوانین (مصنفہ  مولانا مجاہد الاسلام قاسمی صاحب ) دفعہ (73) صفحہ 192 میں ہے:

’’شوہر کا حقوق زوجیت ادا نہ کرنا

ترک مجامعت اور بیوی کو معلقہ بنا کر رکھنا بھی تفریق کے اسباب میں سے ایک سبب ہے، کیونکہ حقوق زوجیت کی ادائیگی واجب ہے۔ حقوق زوجیت ادا نہ کرنا اور بیوی کو معلقہ بنا کر رکھنا ظلم ہے، اور رفع ظلم قاضی کا فرض ہے، نیز مذکورہ صورت میں عورت کا معصیت میں مبتلا ہونا بھی ممکن ہے، قاضی کا فرض ہے کہ ایسے امکانات کو بند کر دے۔ اس لئے اگر عورت قاضی کے یہاں مذکورہ بالا شکایت کے ساتھ مرافعہ کرے تو قاضی تحقیق حال کے بعد لازمی طور پر رفع ظلم کرے گا اور معصیت سے محفوظ رکھنے کے مواقع پیدا کرے گا۔ مذہب مالکی میں بھی ترک مجامعت وجہ تفریق ہے۔‘‘وسيأتي في باب الظهار أن على القاضي إلزام المظاهر بالتكفير دفعا للضرر عنها بحبس أو ضرب إلى أن يكفر أو يطلق وهذا ربما يؤيد القول المار بأنه تجب الزيادة عليه في الحكم فتأمل.(ردالمحتار،باب القسم 4/ 377)واذا ثبت لها التطليق بذالك فبخشية الزنا أولي لأن ضررترك الوطئ أشد من ضررعدم النفقة ،ألا تري ان اسقاط النفقة يلزمهاوان أسقطت حقهافي الوطئ فلها الرجوع فيه ولأن النفقة يمكن تحصيلها بنحوتسلف وسوال بخلاف الوطئ (فتاوي سعيد ابن صديق فلاتي مالكي بحواله حيلة الناجزة ص:122)

خیر الفتاوی(581/4) میں ہے:

"سوال:حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جو یہ دستور بنایا تھا کہ مرد اپنی بیوی سے صرف چار ماہ علیحدہ رہ سکتا ہے کیا اس سے زیادہ اپنی بیوی سے علیحدہ رہ سکتے ہیں یا نہیں؟ یہ ائمہ میں سے کسی کا مذہب ہے یا نہیں؟”

الجواب:بلا عذر چار ماہ سے زائد علیحدہ نہیں رہنا چاہیئے، مالکیہ کے ہاں اگر بقصد اضرار اتنی مدت بیوی سے علیحدہ رہا تو وہ بذریعہ عدالت نکاح فسخ کرا سکتی ہے۔

احکام القرآن لابن العربی (244/1) میں ہے:"قال علمائنا اذا امتنع من الوطئ قصدا للاضرار بالزوجة من غير عذر مرض او رضاع و ان لم يحلف كان حكمه حكم المولى و ترفعه الى الحاكم ان شاءت”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved