• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصے میں ’’جا میں نے تجھے طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی‘‘   کہنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے آج سے تقریبا دس سال پہلےاپنی بیوی کو طلاق کا ایک نوٹس بھیجا تھا، اس سے پہلے میں نے کبھی طلاق نہیں دی، نوٹس ارسال کرنے کے بعد دو ہفتوں کے اندر میں نے رجوع  کر لیا تھا، رجوع کے بعد دس سال سے  ہم میاں بیوی ساتھ رہ رہے ہیں، تین چار دن  پہلے پیسوں کے لین دین کے بارے میں میرا اور میری بیوی کا جھگڑا ہوا، میں نے غصے کی حالت میں  اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں جن کے الفاظ یہ تھے کہ ’’جا میں نے تجھے طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی‘‘ جب یہ الفاظ میرے منہ سے نکل گئے تو پھر مجھے احساس ہوا کہ میں نے یہ کیا کر دیا،  غصے کی حالت میں بیوی اور بیٹی کو مارا بھی تھا لیکن طلاق دیتے وقت مجھے  علم  تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور کیا کر رہا ہوں۔  مہربانی فرما کر اس مسئلے کا حل بتا دیں ۔

طلاقنامے کی عبارت:۔۔۔۔۔من مقر بقائمی ہوش و حواس بغیر کسی دباؤ کے رضامندی خود مسماۃ سمیرا رشید دختر محمد رشید مذکوریہ کو طلاق (طلاق اول) دیتا ہوں۔ اب بھی مذکوریہ چاہے تو احسن طریقے سے آکر من مقر کے ساتھ خانہ آبادی کر سکتی ہے، اور اپنا حق زوجیت ادا کرے اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرے تو من مقر شرعی حدود کے اندر رجوع کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہوں، بصورت دیگر مجبور ا من مقر مسماۃ مذکوریہ کو باقی ماندہ دو طلاقیں دے دوں گا اور ہمیشہ کے لئے اپنی زوجیت سے فارغ کر دوں گا۔ پس دستاویز طلاق اول ہذا تحریر کروا کر، پڑھ کر، سن کر، سمجھ کر، درست تسلیم کرتے ہوئے اس پر اپنے دستخط و نشان انگوٹھا جات روبرو گواہان نصب کر دیے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں، جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے، لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے.

توجیہ: مذکورہ صورت میں طلاقنامے کے ان الفاظ سے کہ ’’ مسماۃ سمیرا رشید دختر محمد رشید مذکوریہ کو طلاق (طلاق اول) دیتا ہوں‘‘ ایک رجعی طلاق واقع ہو گئی تھی، پھر چونکہ شوہر نے عدت کے اندر رجوع کر لیا تھا لہذا نکاح باقی رہا، پھر دس سال بعد جب شوہر نے یہ کہا کہ ’’جا میں نے تجھے طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی‘‘ تو ان الفاظ سے بقیہ دو طلاقیں بھی واقع ہو گئیں کیونکہ  اگرچہ شوہر نے غصے کی حالت میں یہ الفاظ کہے ہیں، لیکن غصے کی کیفیت ایسی نہیں تھی کہ  اسے معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے، اور  نہ ہی اس سے خلاف عادت کوئی قول یا فعل سرزد ہوا، اور غصہ کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

فتاوی شامی (443/4) میں ہے:وفي التتارخانية: ……. و لو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه.

عالمگیری (1/470) میں ہے:وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

فتاوی شامی (4/439) میں ہے:قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة تدل علی عدم نفوذ أقواله ……….فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن ادراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.

درمختار مع ردالمحتار (4/509) میں ہے:كرر لفظ الطلاق وقع الكل.(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved