• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے بیوی کے بھائی کو کہا کہ ’’اپنی بہن کو آکر لے جاؤ، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘ کیا طلاق واقع ہوگئی؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی نے بیوی کے بھائی کو کال کرکے کہا کہ ’’اپنی بہن کو آکر لے جاؤ، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘ اور وہ مذکورہ جملہ بار بار ايك ہی مجلس میں بول چکا ہے۔ کیا طلاق واقع ہوگئی؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں یہ جملے بولتے وقت اگر شوہر نے طلاق کی نیت کی تھی تو ایک بائنہ طلاق واقع ہوچکی ہےجس سے سابقہ نکاح ختم ہوچکا ہے اور اگر شوہر نے طلاق کی نیت نہیں کی تھی اور نیت نہ ہونے پر بیوی کے سامنے قسم بھی دے دے تو کوئی طلاق واقع نہ ہوگی اور اگر قسم دینے سے انکار کردے تو بیوی اپنے حق میں ایک بائنہ طلاق شمار کرے گی۔ بائنہ طلاق کے بعد دوبارہ اکٹھے رہنے کے لیے گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہوتا ہے۔

نوٹ: اگر شوہر نے اس واقعہ کے علاوہ کبھی طلاق نہیں دی تو اس واقعہ میں بائنہ طلاق واقع ہونے کی صورت میں دوبارہ نکاح کرنے کے بعد شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا حق باقی ہوگا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر نے دو جملے استعمال کیے ہیں۔ (۱)’’اپنی بہن کو آکر لے جاؤ‘‘، (۲)’’اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ پہلا جملہ کنایاتِ طلاق کی پہلی قسم میں سے ہے جس سے شوہر کے حق میں طلاق کا واقع ہونا ہر حال میں نیت پر موقوف ہوتا ہے اور دوسرا جملہ کنایاتِ طلاق کی دوسری قسم میں سے ہے جس سے بھی شوہر کے حق میں طلاق کا واقع ہونا  مذاکرۂ طلاق کے علاوہ باقی حالتوں میں شوہر کی نیت پر موقوف ہوتا ہے اور بیوی کے حق میں طلاق کی نیت نہ ہونے پر بیوی کے سامنے قسم دینے پر موقوف ہوتا ہے۔ مذاکرۂ طلاق سے مراد یہ ہے کہ شوہر نے پہلے طلاق دے کر یہ جملہ کہا ہو یا بیوی کے مطالبۂ طلاق کے جواب میں شوہر نے یہ جملہ کہا ہو۔ سوال سے بظاہر معلوم ہورہا ہے کہ مذاکرۂ طلاق نہیں پایا گیا لہٰذا دونوں جملوں سے شوہر کے حق میں طلاق کا واقع ہونا شوہر کی نیت پر موقوف ہے، اور بیوی کے حق میں نیت نہ ہونے پر کم از کم بیوی کے سامنے قسم دینے پر موقوف ہے لہٰذا  اگر شوہر نے دونوں جملوں میں سے کسی ایک جملے سے یا دونوں جملوں سے طلاق کی نیت کی ہے تو دونوں صورتوں میں شوہر کے حق میں بھی ایک بائنہ طلاق واقع ہوگئی ہے اور بار بار یہی جملے دوہرانے سے بھی ایک ہی طلاق واقع ہوگی، لانه لا یلحق البائن البائن اور اگر کسی جملے سے بھی طلاق کی نیت نہیں کی اور نیت نہ ہونے پر بیوی کے سامنے قسم بھی دے دی تو کسی کے حق میں کوئی طلاق واقع نہ ہوگی ورنہ بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوگی۔

النتف فی الفتاویٰ للسغدی (1/327) میں ہے:وقسم منها يصدق الرجل فيه على اي وجه كان ان كان في حال الرضا او في حال الغضب او علي تقدمة ذكر الطلاق وهو قوله……… اذهبي او اذهبي حيث شئت او قومي او اخرجي….. الخ

احسن الفتاویٰ (5/179) میں ہے:’’سوال: عبد اللہ نے اپنی بیوی مسماۃ نور جہاں پر شک کی بناء پر نور جہاں کے والد کو بلا کر یہ الفاظ کہے کہ ’’تم اپنی لڑکی کو اپنے گھر لے جاؤ، مجھے اس پر شک ہے‘‘ تو کیا ان الفاظ سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ بینوا توجرواجواب: اگر شوہر نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے کہے  ہیں تو ایک طلاقِ بائن ہوگئی۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم‘‘امداد المفتین (ص527)  اور فتاویٰ رحیمیہ (8/302) میں ہے:’’زید کا قول ہم سے تم سے کوئی تعلق نہیں یہ کنایہ طلاق ہے۔ صرح العالمگیریة والخلاصة حیث قال لم یبق بیني وبینك عمل أو شيئ وأمثال ذلك اور یہ کنایہ قسم ثانی میں داخل ہے۔‘‘در مختار (4/531) میں ہے:(لا) يلحق البائن (البائن)در مختار مع رد المحتار (4/520) میں ہے:والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما. مجتبى.(قوله بيمينه) فاليمين لازمة له سواء ادعت الطلاق أم لا حقا لله تعالى. ط عن البحرہدایہ (2/409، باب الرجعۃ) میں ہے:‌‌فصل فيما تحل به المطلقة: "وإذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها” لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبلهوفي فتح القدير تحته: قوله: (لأن زواله) مرجع الضمير الحل وضمير فينعدم للزوال.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved